بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازعہ شہریت قانون پر مسلم کش فسادات شدت اختیار کر گئے ہیں۔فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 23 ہو گئی۔ انتہا پسند ہندوئوں نے اشوک نگر میں مسجد پر اپنے جھنڈے لگا دیئے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے 19 مارچ 2000ء کے دورہ بھارت کے دوران مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع اسلام آباد میں بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس مسلح افراد نے سکھ برادری کے 35 سے زائد افراد کا قتل عام کیا تھا۔ جبکہ ٹرمپ کے دورہ بھارت پر یہ آفت دہلی کے مسلمانوں پر ٹوٹی اور مسلم کش فسادات میں بڑے پیمانے پر مالی و جانی نقصان ہوا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ناروا سلوک برتا جاتا ہے۔ مودی نے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرکے بھارت میں صرف ہندوئوں کے رہنے کیلئے قانون سازی شروع کر رکھی ہے۔ اس سے قبل گائے کے گوشت کھانے کے شبہ اور مسلمانوں جیسا حلیہ بنانے پر کئی افراد کو بلوائیوں نے تشدد کرکے مارا۔ اقوام متحدہ جس کے چارٹر میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بنانا شامل ہے وہ خود اقلیتوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق ، او آئی سی اور عرب لیگ سی تمام تنظیمیں بھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے قتل عام پر چپ سادھے بیٹھی ہیں جو قابل افسوس ہے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک ارب 20 کروڑ آبادی کے ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے امن فوج بھیجے اور ان کو ہندو اکثریت کے ظلم سے بچائے۔