پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا ،، پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بشمول حلیف جماعتوں کے،سب کی سب پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کے خلاف متحد ہیں، آج ہم یہ امکان غالب ظاہر کر رہے ہیں کہ اب کوئی’’ دوسرا‘‘ بھی عمران خان کے ساتھ نہیں،،،جن کے بارے میں ایک پیج پر ہونے دعوے کئے جاتے تھے وہ بھی اب عوام کی حالت زار کی جانب دیکھ رہے ہوں گے، وزیر اعظم سوا سال تک جنہیں لٹکانے کے دعوے کرتے رہے وہ بھی بحفاظت ان کی پہنچ سے دور جا چکے، رہی بات آصف زرداری کی تو انہیں لمبی جیل کاٹنے میں بہت ،،سواد،، آتا ہے، پچھلی جیل یاترا نے تو انہیں اس ملک کا صدر بنوا دیا تھا ان کی پارٹی کو پانچ سال کے لئے اقتدار مل گیا تھا، لیکن موجودہ جیل یاترہ انہیں کوئی ،، پھل،، نہ دے سکے گی، عمران خان صاحب کی بڑھتی ہوئی مشکلات کی بنیادی وجہ ان کا گرم مزاج ہے، کاش کوئی انہیں سمجھا سکتا ،،،، حکمران کبھی جذباتی اور غصیلے نہیں ہوا کرتے،،،،، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جس طرح ان سے مخاطب ہوئے وہ بھی وزیر اعظم کے مزاج کا ہی اعجاز ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا انتباہ بلا وجہ بھی نہیں، بلا شبہ سزا یافتہ قیدی کا بیرون ملک علاج کرانے کی بات یا پیشکش وزیر اعظم کی طرف سے ہی سامنے آئی تھی، نواز شریف کی ’’بیماری‘‘پر جس طرح عمران خان موم ہوئے، وہ ان کی معصومانہ انسان دوستی کا مظہر تھا لیکن وہ یہاں حد سے تجاوز کر گئے، انہیں ان کے اعتماد کے ڈاکٹرز نے بھی اندھیرے میں رکھا، بے شک نواز شریف کو،، علاج،، کے لئے ملک سے باہر بھجوانے کی اجازت عدلیہ سے پہلے خود وزیر اعظم نے دی، کابینہ کا اجلاسوں میں وزراء ن لیگ کے سزا یافتہ قیدی قائد کو باہر بھجوانے کی مخالفت کرتے رہے اور فردوس عاشق اعوان یہ بات چھپاتی رہیں، نواز شریف کے لندن پہنچ جانے کے بعد یہ اندازے درست دکھائی دینے لگے ہیں کہ ان کا ،،علاج،، سو فیصدی ملک کے اندر ہو سکتا تھا لیکن ن لیگیوں کے منظم پروپیگنڈہ کے سامنے حقیقت ماند پڑتی رہی، اصل مقصد نواز شریف کو جیل سے باہر نکلوانا تھا جو بڑی آسانی سے حاصل کر لیا گیا ، اس سارے کھیل میں ن لیگ سے آخر میں ایک غلطی ہوئی، نواز شریف کو قطری ائیر ایمبولنس میں بٹھانے تک اگر نواز شریف کو اسٹریچر پر لٹا دیا جاتا تو شاید ،، فلم،، اور زیادہ ہٹ رہتی اور باتیں بنانے والے باتیں بناتے ہی رہ جاتے،اور تو اور نواز شریف کو ہارلے اسٹریٹ کے اس ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جایا گیا جس کے پاس لے جانے کے دعوے کئے جاتے رہے، اپنی کامیاب حکمت عملی سے جیل سے قانونی طور پر،،، مفرور،، ہونے والے نواز شریف کی جتنی وڈیوز بھی نیوز چینلز پر دیکھی گئی ہیں ان میں ثابت ہوجاتا ہے کہ معزول وزیر اعظم کسی ،، جان لیوا حالت،، میں نہیں تھے، ن لیگ پروپیگنڈے کی ماسٹر جماعت سمجھی جاتی ہے،،،، بیماری،،، کو جس سطح پر لے جایا گیا اور پھر ،،سب،، سے ان کی بیماری کی سطح کو منوایا گیا اس کے لئے مریم اورنگ زیب سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ ٭٭٭٭٭ جیل کاٹنا کسی بھی قیدی کے لئے آسان نہیں ہوتا چاہے اسے جیل کے اندر دنیا جہاں کی ساری سہولتیں مہیا کر دی جائیں، جیل جیل ہی ہوتی ہے، ایک ایک پل گننا پڑتا ہے، ایک ایک لمحہ گزرنا مشکل بن جاتا ہے، قیدی کو بہر حال کئی ایسی پابندیوں کو ماننا پڑتا ہے جو جیل سے باہر آزاد لوگوں پر لاگو نہیں ہوتیں، جیل کے اندر سونا اور جیل کے اندر جاگنا بھی ایک پابند عمل ہوتا ہے، کھانے کا وقت بھی مخصوص، مگر ہاں! آپ کی طبیعت اگر سازشانہ ہے تو آپ کو سازش کے تانے بانے بننے لے لئے بہت وقت مل جاتا ہے اور اگر آپ کے پاس جیل سے باہر اس سازش پر عمل درآمد کرانے کے لئے سیٹ اپ موجود ہو، اس سب کے باوجود آپ کی ساری مرضیاں جیل میں نہیں چلتیں، چاہے آپ کتنے بڑے ہی ،،، نواز شریف،، کیوں نہ ہوں ، آپ جیل میں کسی بھی وقت کسی کو ملنا چاہیں تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا، رات دو بجے آپ کا من انڈے کھانا چاہے اور انڈے آپ کی پہنچ سے ہوں دور تو خود ہی سوچئیے آپ کیا کریں گے؟ ہمارے ان سب مثالوں کے آپ کے سامنے رکھنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ نواز شریف جیل نہیں کاٹ سکتے تھے،1999ء کی مثال موجود ہے،اب تو نواز شریف کے جیل جانے سے پہلے ن لیگ نے اس منصوبے پر کام شروع کر دیا تھا کہ انہیں جیل سے باہر لایا کیسے جائے گا، منصوبہ بھی ایک نہیں دو تھے، پہلے منصوبے پر مریم نواز کام کر رہی تھیں دوسرے پر ان کے ٹیلنٹڈ انکل شہباز شریف ڈٹے ہوئے تھے، بظاہر مریم نواز بے شمار وسائل کے باوجود ناکام رہیں اور شہباز شریف کامیاب، لیکن ایسا نہیں ہے اس ،، جیت،، میں مریم نواز کا کردار اہم ہے، نواز شریف کے جیل سے اسپتال، اسپتال سے جاتی عمرہ اور جاتی عمرہ سے لندن تک کے اس سفر میں کتنی شفافیت ہے اور کتنی شفافیت نہیں، ہم اس پر تبصرہ نہیں کرتے، عرض بس اتنی ہے کہ اب سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے سوا باقی سارے قیدیوں کو رہا کر دینا چاہئیے، صرف یہی ہو سکتا ہے اس غیر معمولی غلطی کا تاوان،،،، ٭٭٭٭٭ جس وقت نواز شریف کو لندن برج کے قریب گائز اینڈ تھامس کلینک میں چیک اپ اور ٹیسٹوں کے لئے لے جایا جا رہا تھا، میرے ساتھ دیرینہ دوست عمران بیٹھے ہوئے تھے، عمران صاحب چند سال پہلے تک علامہ اقبال ٹاؤن دبئی چوک میں ایک میڈیکل اسٹور چلایا کرتے تھے، روزانہ شام کو آٹھ دس بجے دوسروں کو مدعو کرنا اور انہیں طرح طرح کے کھابے کھلانا ان کا وطیرہ بنا ہوا تھا، بعد میں عمران نے لائسنس لے کر ادویات ساز کمپنی کی بنیاد رکھی اور ماشاء اللہ اب تین کمپنیوں کے مالک ہیں، عمران کا ڈاکٹروں سے بہت واسطہ پڑتا ہے، ایک، دو، دس سے نہیں ان کی سینکڑوں ڈاکٹروں سے ملاقاتیں رہتی ہیں، ایک نیوز چینل پر جب نواز شریف کی لندن برج کے اسپتال میں پہنچنے کی فوٹیج دکھائی جا رہی تھی تو میں نے عمران سے پوچھا،،،، آپ کا نواز شریف کی بیماری کی نوعیت اور اس بیماری کی سطح پر کیا تبصرہ ہے؟ عمران نے انتہائی کرخت لہجہ میں مجھے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا، یہ سوال مجھے اپنے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہوتا ہوا محسوس ہوا، عمران کہہ رہا تھا۔۔۔۔ ،،،،،،اچھا! نواز شریف بیمار ہوگئے ہیں؟ کب؟ مجھے نہیں پتہ۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف ،، فارن فنڈنگ کیس،،، یہ کیس اس وقت چار سال سے زیادہ عرصہ تک تو لٹکایا جاتا رہا جب عمران خان اپوزیشن میں تھے، ان کے اقتدار میں آجانے کے چند ماہ بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کا متحرک ہوجانا کوئی معمول کی بات نہیں ہے، غیر ملکی فنڈنگ کا کیس گو آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بھی ہے۔