یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت تعلیم کے مسائل پر توجہ دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے یونیورسٹیوں کو فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، اس کے ساتھ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ طبقاتی تعلیم کی وجہ سے غریب طبقہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور واضح طور پر پاکستان کے لوگ دو طبقوں میں منقسم نظر آتے ہیں ۔ غریب لوگ اپنی اولادوں کو انگلش میڈیم پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے سے قاصر ہے ، غریبوں کے بچے اردو میڈیم سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم کا پورا سسٹم انگلش میڈم ہے اور غریب کے بچے میڈیکل، انجینئرنگ، سی ایس ایس ، آئی ایس ایس بی میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ پنجاب بھر کے تمام سرکاری سکولوں میں پہلی سے پانچویں (پنجم) تک تدریسی نظام دوبارہ مکمل اُردو میڈیم کر دیا گیا ہے، انگریزی میڈیم تدریسی نظام کو باقاعدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی ہدایت پر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے پرائمری تک تمام درسی کتب اردو نصاب کے تحت تیار کرلی ہیں، مارچ میں یہ تمام درسی کتب سرکاری سکولوں میں مفت تقسیم کی جائیں گی ۔انہیں سطور میں ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اُس وقت تک پرائمری سطح پر انگریزی کو ختم نہ کیاجائے جب تک پاکستان میں پرائمری سطح پر ماں بولی کی تعلیم رائج نہیںہوجاتی ، اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگریزی سے جان نہیں چھوٹتی ۔پرائمری سطح پر سرکاری سکولوں میں انگریزی کو ختم کرنے سے غریب کے بچوں کا نقصان ہو گا اور وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہیں گے ۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔جب تک انگریزی کا متبادل تیار نہیں ہوتا ، تعلیمی اداروں میں انگریزی کو برقرار رکھنا چاہئے کہ اردو میڈیم کی وجہ سے غریب کے بچوں کا پہلے بھی بہت نقصان ہو چکا ہے ، اس کے ساتھ ماں بولیوں میں تعلیم کے فلسفے کو بھی آگے بڑھانا چاہئے ۔ پنجاب کے دانشور پنجابی ماں بولی کی تعلیم کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں مگر وہ سرائیکی کا نام نہیں لیتے ، جو کہ غلط ہے۔ اصولی اور درست بات یہ ہے کہ پنجاب میں پنجابی کے ساتھ سرائیکی بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور پنجاب کے نصف سے زائد اضلاع کی مادری زبان سرائیکی ہے ۔ پنجابی بولنے والے اضلاع میں پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور سرائیکی بولنے والے اضلاع میں سرائیکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور ضروری ہے کہ پوٹھوہاری زبان کو بھی اس کا حق ملنا چاہئے ۔ اگر خدانخواستہ پنجاب میں صرف پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو ’’ماں بولی کے تعلیم کے حق ‘‘ کا فلسفہ مجروح ہوگا اور اس سے نئے تنازعات اور نئی طرح کے لسانی مسائل جنم لینے کا بھی خدشہ ہے ۔بلوچستان حکومت نے اپنے نوٹیفکیشن نمبر 27 (3 فروری 2014 )کے مطابق اپنے صوبے میں بلوچی ، پشتو ، براہوی ، سندھی ، فارسی ،پنجابی اور سرائیکی کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا حکم جاری کیا ۔ اسی طرح خیبرپختونخواہ حکومت نے بھی بشمول سرائیکی صوبے میں بولی جانیوالی مختلف زبانوں کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنایا ہے ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباداور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرائی جا رہی ہے ‘ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں ۔ اس وقت سرائیکی میں پی ایچ ڈی ، ایم فل ، ایم اے ، بی اے ، ایف اے اور میٹرک پڑھائی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پرائمری سطح پر سرائیکی تعلیم کا آغاز کیا جائے تاکہ اپر کلاسوں کے سلسلے میں سرائیکی تعلیم کی مدد ہو سکے ۔ سی ایس ایس میں جس طرح پنجابی ‘ سندھی ‘ بلوچی ‘ پشتو وغیرہ کے پیپرز شامل ہیں ‘ اسی طرح سرائیکی کا بھی شامل کیا جائے کہ ایک سرائیکی ماسٹر ہولڈر سی ایس ایس کے امتحان میں کسی ایسی زبان کا پیپر کس طرح حل کرے گا جو کہ اس نے پڑھی ہی نہیں۔ سی ایس ایس کا نصاب تیار کرنے والے ان پڑھ یا جاہل نہیں ، اور وہ اتنے نادان بھی نہیں کہ ان کو علم نہ ہو کہ اس وقت سرائیکی کا کیا سٹیٹس ہے ۔ان کی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگی ہوئی ہے ۔ عینک اتار کر ان کو سی ایس ایس میں سرائیکی پیپر کے اجراء کا حق دینا ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں سب سے زیادہ کتب سرائیکی زبان میں شائع ہو رہی ہیں اور حکومت پاکستان کاادارہ اکادمی ادبیات ہر سال بہترین سرائیکی کتاب پر ایوارڈ دیتا آ رہا ہے ۔ سرائیکی زبان میں کتابوں کے ساتھ ساتھ رسائل اور سرائیکی اخبار بھی شائع ہو رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان کی خبر رساں ایجنسی اے پی پی میں الگ سرائیکی سیکشن اور سرائیکی نیوز سروس موجود ہے ۔ علاوہ ازیں پرائیوٹ چینل کے علاوہ پی ٹی وی ملتان سنٹر سرائیکی میں پروگرام دیتا ہے اور ریڈیو پاکستان ملتان ‘ بہاولپور ‘ ڈی آئی خان ‘ سرگودھا ‘ میانوالی نہ صرف سرائیکی پروگرام نشر کرتے ہیں بلکہ سرائیکی میں خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں ۔ تو ایسی قد آور زبان کو کب تک نظر انداز کیا جاتا رہے گا سرائیکی بہت قدیم زبان ہے ‘ اس کا ادبی ورثہ پاکستان کا سرمایہ افتخار ہے ۔ سرائیکی ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانیوالی قدیم زبان ہے ۔ سرائیکی واحد زبان ہے جو صوبہ پنجاب کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ سرائیکی زبان بولنے والوں کا اپنا الگ خطہ ‘ الگ تہذیب اورالگ ثقافت ہے ۔پنجاب کے ان اضلاع میں جہاں عرصہ قدیم سے پنجابی بولی جاتی ہے ‘ پنجابی پڑھائی جائے اور سرائیکی اضلاع میں پرائمری سطح پر سرائیکی پڑھائے جانے کے اقدامات ہونے چاہئیں ۔ ماں بولی میں تعلیم کا حق دیگر زبانوں کو بھی ملنا چاہئے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح سندھ میںسندھی کو حاصل ہے ۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سندھ میں سندھی کے ساتھ ساتھ بولی جانیوالی دیگر بڑی زبانوں کے بچوںکو بھی ان کی ماں بولی میں تعلیم کا حق ملنا چاہئے ۔ جیسا کہ سرائیکی سندھ کی دوسری بڑی زبان ہے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ۔ کسی بھی زبان کو آئوٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش بہت بڑا جرم ہے۔