میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا انسان واقعتاً بعض اوقات کتنا بے اختیار ہو جاتا ہے۔ وہ کیسے بے بس اور لاچار نظر آنے لگتا ہے۔ نئے سال کا آغاز جو کہ دھند اور سردی میں لپٹا ہوا ہے‘ گزشتہ سال کی یخ بستگی کا تسلسل ہے باقی معاملات بھی کچھ اسی طرح کے لگ رہے ہیں۔ ہمارے خان صاحب نے قوم کو نئے سال کی مبارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام خوش خبریاں سنیں گے۔ ہمارے صحافی بھائی بھی بڑے بزلہ سنج ہیں کہ اس کے نیچے اس خوش خبری کی سرخی بھی جمادی ہے کہ سال نو کا تحفہ ایل پی جی 23روپے کلو پٹرول2.61اور ڈیزل 2.25روپے مہنگا۔ کمی صرف یہ کہ اس کے ساتھ خان صاحب کا مسکراتا ہوا شرمیلا چہرہ بھی دکھا دیا جاتا تو بات دو آتشہ ہو جاتی۔ بات کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور زرداری نے لفظ ریلیف کے معنی الٹ کر دیے تھے جبکہ عمران نے خوشخبری کو نیا مفہوم دیا ہے۔ ہمیں تو نئے سال کا آغاز کچھ ایسے ہی لگا ہے کہ: مکی رات عذاباں دی چڑھیا دن سزاواں دا لیکن موجودہ حکومت کے نیک ارادوں اور تمنائوں پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو کرپشن کو ختم کرکے ہی دم لے گی۔ کیونکہ کرپشن کرنے والے تو نکل گئے اور پیچھے باقی کرپشن ہی بچی ہے۔ بیورو کریسی اور تاجر دوبارہ تازہ دم ہو گئے ہیں‘ قانون اور احتساب ہانپ رہا ہے۔ سراج الحق نے تو خیر یہ شرارتی تبصرہ کیا ہے کہ حکومت نے آرڈیننس کے اجرا سے نیب کو عیب ثابت کر دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ بے عیب تو صرف اللہ کی ذات ہے وہ جو ہمارے نوجوان شاعر جواد شیخ نے کہا ہے کہ: کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہیے فراز نے بھی تو کہا تھا’’جی چاہتا تھا آپ کے رسوائیاں بھی ہوں‘‘ ویسے جسٹس وجیہہ الدین احمد نے اس مجوزہ آرڈیننس پر خوب تبصرہ کیا ہے کہ اس آرڈیننس کو سمجھنے کے لئے دوبارہ ڈگری لینا پڑے گی۔ مولا بخش چانڈیو بھی تبصروں میں پیچھے نہیں رہے کہ کہتے ہیں 2019ء یوٹرن کے عالمی ریکارڈ کا سال رہا۔ یقینا یہ اعزاز خاں صاحب کے پاس ہے اور اسے باقاعدہ اعزاز ہی نہیں سمجھتے سمجھداری اور دانشمندی کا عمل بھی سمجھتے ہیں۔ زرداری نے بھی ایک مرتبہ کہا تھا کہ وعدے حدیث و قرآن نہیں ہوتے۔ ویسے ان کی بات میں اچھائی کا اعتراف ضرور تھا جو اب کے ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بہرحال خاں صاحب کا دعویٰ ہے کہ تبدیلی سال کے تبدیل ہونے سے بھی نہیں رُکے گی۔ وہی تبدیلی جس پر پی ٹی آئی کے جیالے جھومتے ہیں کہ تبدیلی آئی ہے۔ بس تبدیلی میں ایک ہی خوبی ہے کہ اس کی صنف مونث ہے۔ وہی جو کسی شاعر نے کہا تھا: موت ہے اس لئے پسند مجھے کہ یہ آتا نہیں یہ آتی ہے ویسے واقعتاً بندے کو رج کے ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔ جیف بائی کاٹ نے کہا تھا کہ وہ ڈیڑھ گز باہر نکل کر سٹمپ ہونا پسند کرتے ہیں۔ بات تو ٹھیک ہے کہ دل میں آگے بڑھ کر چھکا مارنے کی حسرت تو نہ رہے۔ آئوٹ کا کیا ہے بندہ ایک انچ باہر ہو یا ایک گز۔ جب کریز پار کر لی تو بس۔ حکومت کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے۔ آپ وزیر صحت ہی کو دیکھ لیں ۔ سب من مانیاں کر رہے ہیں۔ دوائیاں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ بیمار مرنے کو ترجیح دینے لگا ہے۔ حکومت دوائیوں کے سستے ہونے کا اعلان کرتی ہے تو وہ صرف اعلان ہی رہتا ہے۔ دوسرے معاملات میں بھی آپ تحقیق کر لیں کہ جہاں جہاں خان صاحب برہم ہوئے اور نوٹس لیا حرام ہے کہ اس کا کچھ بنا ہو۔ معیشت تو خیر ہے ہی آئی ایم ایف کے ہاتھ‘ یعنی اس حوالے سے خان صاحب بری الذمہ ہیں۔ ہماری گزارش تو صرف اتنی ہے کہ مہنگائی ہونے پر کم از ہمارا مذاق نہ اڑایا جائے‘ زخموں پر یہ کہہ کر نمک نہ چھڑکا جائے کہ عوام اور خوش خبریاں سنے گی۔ ہم تو آپ کے ہیں‘ شوق سے مشقِ ستم فرمائیے: ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے اپنے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی کراچی والے تو مزید مارے گئے کہ بلاول نے تلملاتے ہوئے ایم کیو ایم سے امداد مانگی تھی کہ وفاق کو گرانے میں ساتھ دے تو منہ مانگی وزارتیں صوبہ سندھ میں دے دیں گے۔ پتہ چلا کہ وہاں تقریباً 5روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے ہو سکتا ہے کہ اس میں حکومت کا ہاتھ نہ ہو۔ کئی اور ہاتھ بھی ہیں جو حکومت نے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس سارے لوٹ مار کے منظر نامے میںصرف تنخواہ دار طبقہ مارا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس وہ بھی لوئر مڈل کلاس ،جو زیادہ تر تنخواہ دار ہے۔ آپ صرف دالوں ہی کو دیکھ لیں۔200روپے کلو سے اوپر ہیں۔ لوگوں کو روزی روٹی کا مسئلہ پریشان کئے ہوئے ہے۔ امن و امان کے معاملات بھی ابتر ہو چکے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی‘ زیادتی کے بعد قتل آئے دن کی خبریں ہیں۔ حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں رنگیلے نظر آتے ہیں جن کے بارے حریم شاہ کے تبصرے اور کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ شیخ رشید جیسے انتہائی غیر سنجیدہ لوگ ہمارا مقدر ٹھہرے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اصلی تبدیلی اب کے 2020ء میں آئے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے یہ گمان اور گیان بھی پی ٹی آئی سے محبت کرنے والوں کا ہے یا ہو سکتا ہے۔ وگرنہ تو فیض احمد فیض کی بات یاد آتی ہے کہ پاکستان کا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ یہ وہ نظام ہے جس نے عمران خاں جیسے شخص کوبدل کر رکھ دیا۔ جس پر قوم اندھا یقین کرتی تھی کہ اور کچھ ہو نہ ہو یہ گڑ بڑ نہیں کر سکتا‘ نہ جھک سکتا ہے اور نہ بک سکتا ہے۔ یہ شعر کبھی میں نے کسی کے لئے کہا تھا: آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے تبدیلی کی قیمت تو وزارت عظمیٰ تھی۔ وہ حاصل ہو چکی۔ انسان واقعتاً بہت کمزور ہے اس کی اول تو کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے یا پھر اس کی کوئی نہ کوئی خواہش جو پوری کر دی جاتی ہے۔ خریدنے والے پیسہ ہی خرچ نہیں کرتے بلکہ پیسہ خرچ کرنے والوں کو ساتھ لگا دیتے ہیں۔ میرے پیارے معزز قارئین! میں کوئی بجھارتیں نہیں ڈال رہا‘ آپ خود سمجھدار ہیں۔ ہمارے حصے میں تو رلنا اور کڑھنا ہی ہے۔ آپ قدم قدم پر مجبور ہیں۔ مثلاً آپ کے بچے کی فیس اگر بڑھا دی گئی ہے تو آپ وہ ادا کریں گے۔ ٹیکس صرف وہ نہیں دیں گے جن کو دینا بنتا ہے۔ اپنوں کو بچانے کے لئے تو آرڈیننس ہی بہت ہے۔ اپوزیشن کیا شے ہے اینی مل فارمAnimal farmکی حکومت کی طرح کمانڈ منٹس یعنی احکام اپنے لئے سب ’’روا‘‘ ہوتے ہیں۔ وہی جو اعزاز احمد آذر نے کہا تھا’’ہمارے حصے میں عذر آئے اصول آئے‘‘