کتابوں پر لکھنے کا ارادہ کیا تو معاً ڈاکٹر محمود احمد غازی یاد آ گئے۔ ڈاکٹر غازی صاحب علم بھی تھے صاحب ذوق بھی ۔کتاب بینی اور کتاب نویسی غازی صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ تھا۔ جب سعودی عرب سے واپس آ کر میں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ملازمت کا آغاز کیا تو غازی صاحب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے مگر افسری کے زعم سے تہی دامن تھے۔ ان سے قربت ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ پروفیسر غازی تقریباً ہفت زبان تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی اور عربی میں مکمل روانی کے ساتھ اظہار خیال پر قدرت رکھتے تھے۔ افسوس کہ وہ صرف 58برس کی عمر میں دل کے جان لیوا دورے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ایک بار باتوں باتوں میں کتابوں کے بغیر زندگی کا تذکرہ چھڑ گیا تو غازی صاحب نے فرمایا کہ کتاب کے بغیر زندگی ایسے ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔ دیکھئے افتخار عارف نے کتاب زندگی کا خلاصہ اور مآل ہستی کا اثاثہ کس خوش ذوقی سے بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں: ایک چراغ، ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے گزشتہ دنوں لاہور میں کتاب میلہ سجا تو میں نے شوق کتاب بینی میں بہت سی کتابیں خرید لیں۔خواہش یہ تھی کہ سارے کام چھوڑ کر محو مطالعہ ہو جائوں اور ایک ایک کر کے سبھی کتابوں کا قرض چکا دوں ،مگر بقول استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی: یہ ریزہ ریزہ کام مجھے کھا گئے لہٰذا تیز رفتاری سے تو حسب خواہش مطالعہ نہ ہو سکا البتہ سست رفتاری سے کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا۔ میں نے آپ بیتیوں کے بارے میں کچھ کتب خرید لیں۔ ژاں لاکوتیور کی ’’ہوچی منھ کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب کا نہایت رواں دواں ترجمہ کیا ہے یہ داستان حیات اور انقلاب ویت نام کی کہانی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی طرح امریکی صدور میں سے ابراہام لنکن میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ ان کے بارے میں ایک تازہ کتاب کافی معلومات افزا محسوس ہوتی۔ کتاب کا ٹائٹل تھا۔ Lincon's Last Trial اس کتاب کی قیمت مجھے اپنی پہنچ سے ماورا محسوس ہوئی تو میں نے ان کے بارے میں ڈیل کارنیگی کی کتاب خریدی۔ جسے میں مدتوں پہلے ایک بار پڑھ چکا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں اطالوی خاتون صحافی اوریانا فلاشی کے انٹرویوز نے دنیا میں دھوم مچا دی تھی۔ اوریانا فلاشی کے انٹرویوز محض سوال و جواب کا مجموعہ نہیں تھے بلکہ ان سے بڑھ کر بہت کچھ تھا۔ وہ اپنے مخاطب کی شخصیات کے اندر جھانک کر اس کے پس پردہ افکار کو نوک زباں تک لانے کا فن خوب جانتی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے چند ہفتوں کے ہی بعد اس نے فروری 1972ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے اور پھر اپریل 1972ء میں اس وقت کے پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو سے تفصیلی بات چیت کر کے ان کے حقیقی خیالات تک کافی حد تک رسائی حاصل کی تھی۔ اوریانا فلاشی نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ اس کے انٹرویوز کا بنیادی ہدف کیا تھا۔ وہ لکھتی ہے کہ میں اس امید کے ساتھ ان شخصیات کے پاس گئی کہ وہ طریقے سمجھ پائوکہ جن کے ذریعے وہ طاقتور لوگ اپنی طاقت مسلط کر کے ہم جیسوں کی قسمت کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا تاریخ سبھی لوگوں کی طرف سے رقم کی جاتی ہے یا فقط چند لوگ اسے بناتے ہیں؟ مجھے 1972ء میں دیے گئے اندرا گاندھی کے انٹرویو سے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اندرا گاندھی جو اپنے آپ کو روشن خیال سیکولر‘ پروگریسو اور ماڈرن کہلانے میں فخر محسوس کرتی تھی اس کے اہداف اور آج کے انتہائی کم تعلیم یافتہ اور مسلم کش بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے افکار میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اندرا گاندھی نے اوریانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ دیکھو ‘ میرے لئے ایک ہی ایسا نقطہ ہے جوبر سوں بعد بھی تبدیل نہیں ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انڈیا میں ابھی بھی بہت غربت پائی جاتی ہے۔ ہمیں آزادی کا کیا فائدہ ہوا اگر آج بھی ہم ان بیماریوں سے آزادی حاصل نہیں کر پائے۔ جن بیماریوں نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی بیماری۔ نسل پرستی کی بیماری‘ معاشی غیر مساوی تقسیم کی بیماری یہ ساری برائیاں ابھی تک جڑ سے نہیں اُکھاڑی جا سکی ہیں۔ اس زمانے میں پاکستان انڈیا میں اپنے 90ہزار جنگی قیدیوں کے بارے میں بہت متفکر تھا مگر اندرا کے انٹرویو کے پانچ چھ ہفتے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اوریانا فلاشی کو انٹرویو دیتے ہوئے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ مسز گاندھی کا تو بس ایک ہی خواب ہے کہ وہ سارے کا سارا برصغیر ہتھیا لیں اور ہم سب کو محکوم بنا لیں۔ وہ متحد ریاستیں بنانا چاہتی ہیں اور پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتی ہے۔ اس لئے وہ کہتی ہے کہ ہم بھائی بھائی ہیں۔ ہم کبھی بھائی نہیں رہے۔ ہمارے مذہب‘ ہمارے رہن سہن کے طریقے ہماری روحوں میں دور تک اترے ہوئے ہیں۔ اب بتائیے کہ پاکستان کے حوالے سے اندرا اور نریندر مودی کے خیالات میں کیا فرق ہے۔’’ شریکاں دی کندھ‘‘ گراتے گراتے انڈیا نے اپنے آپ کو تباہ کر لیا ہے۔ آج انڈیا میں خوفناک حد تک غربت‘ جہالت اور پسماندگی پائی جاتی ہے مگر کوئی بھارتی حکمران پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی فضا قائم کر کے اپنے مظلوم بھارتیوں کی حالت سنوارنے کے لئے تیار نہیں۔ فکشن ہائوس نے اوریانا کی کتاب کا ترجمہ ’’تاریخ کا دریچہ‘‘ کے ٹائٹل سے کیا ہے۔ کتاب نہایت دلچسپ اور معلومات سے بھری ہوئی ہے کتابوں کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ مگر کتاب فطرت کا مطالعہ بھی آپ کی زندگی سے براہ راست ملاقات کرا دیتا ہے۔ یہ تجربہ بھی کبھی کبھی کر کے دیکھیے۔ بقول ندا فاضلی: دھوپ میں نکلو گھٹائوں میں نہا کر دیکھو زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو