ماہِ رمضان المبارک میں دیگر عبادات کے ساتھ" زکوٰۃ" کی ادائیگی اور اس کے امور کے حوالے سے گذشتہ کالم کی بابت جو "فیڈ بیک"موصول ہوا، اس میں ایک تو اسکی ثقیل فقہی اصطلاحات تھی ، اور دوسرا اسکے نصاب اور مقدار کے مسائل۔دراصل مشروعیت زکوٰۃ کے بعد اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ اس کی مقدار کو معین کر دیا جائے۔ بصورت دیگر افراط و تفریط کے وقوع میں آنے کا احتمال غالب بلکہ یقینی تھا۔ تعیین مقدار کے لیے (جیسے کہ پہلے اصول کلیہ کے ضمن میں اس کا بیان ہو چکا ہے) یہ ضروری ہے کہ نہ تو وہ مقدار اتنی تھوڑی ہو کہ اس کے ادا کرنے کا اس کو چنداں احساس نہ ہو اور رذیلہ بخل کے ازالہ میں وہ کچھ بھی موثر ثابت نہ ہو اور نہ ہی وہ مقدار میں اس قدر زیادہ ہو کہ اس کا ادا کرنا پہاڑ محسوس ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو بار بار ادا کرنے کا درمیانی وقفہ نہ تو بہت زیادہ ہو جس کی وجہ سے ادائے زکوٰۃ کے اصل مقصد میں خلل واقع ہو اور نہ ہی بہت کم ہو کہ لوگوں کو اس کا ادا کرنا بوجھ محسوس ہو۔جن قواعد اور اصول پر اقالیم صالحہ کے انصاف پسند سلاطین نے مالیہ اور ٹیکس کا نظام مبنی کیا ہے اور جن کو معقول پسند طبائع نہایت مناسب اور معقول سمجھتے ہیں، وہ چار ہیں: ۱۔ یہ کہ مالیہ یا زکوٰۃ ان اموال سے وصول کیا جائے جن میں اضافہ ہوتا رہتا ہو۔ ان اموال کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور ان کی حفاظت ایک اہم فریضہ ہے جو اس کے ذمہ عائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی نشوونما بغیر اس کے متصور نہیں کہ ان کو شہر یا گائوں کے باہر لے جا کر چرایا جائے یا اگر وہ تجارت کا مال ہے تو اس کے لیے آدمی کو اکثر سفر کرنا پڑتا ہے (بہرحال ان کی حفاظت کی ضرورت پیش آتی ہے) اور چونکہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس لیے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا ان کے مالکوں کو نہایت آسان معلوم ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا ’’الغرم مع الغنم‘‘ کے اصول کے مطابق بالکل درست اور انصاف کی بات ہے (حکومت ملک مین امن قائم رکھ کر ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور اس کے عوض میں ان کو ایک خفیف سا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے،جو درحقیقت اضافہ ہی کا ایک جزو قلیل ہوتا ہے۔ اب کہیے اس میں کون سی بات عدل اور انصاف کے خلاف ہے) ان اموال نامیہ کی تین قسمیں ہیں (الف) چوپایہ جانور جو چراگاہوں میں چل پھر کر اپنا پیٹ بھرتے ہوں اور ان کی نسل بڑھتی رہتی ہو۔ (ب) کھیت اور باغات (ج) مال تجارت۔ ۲۔جن لوگوں کے پاس خزانے ہوں اور وہ سونے چاندی میں لیٹتے ہوں ان سے بھی حکومت کے اغراض کے لیے مناسب سالانہ رقم وصول کی جائے کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کو حفاظت مال و جان کے لیے حکومت کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے،چوروں اور قطع الطریق کا انہی لوگوں کو ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ان لوگوں کے مصارف ویسے بھی کچھ کم نہیں ہوتے۔اگر زکوٰۃ کی قلیل رقم ان پر اضافہ کی جائے تو ان کو اس کا کچھ بھی بوجھ محسوس نہ ہو۔ ۳۔حکومت کو ٹیکس اور زکوٰۃ دینے کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جن کو بغیر تعصب کے کوئی دفینہ وغیرہ مل جائے یا کہیں سے جواہرات اور بیش قیمت معدنیات کا خزانہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ ان لوگوں کو بھی اپنے مال سے تھوڑا سا حصہ حکومت اور بیت المال کو دینا ناگوار نہیں گزرتا۔ ۴۔پیشہ ور لوگ جو روزمرہ کچھ کماتے رہتے ہیں،ان پر خفیف سا ٹیکس عائد کیا جائے تو چونکہ ان لوگوں کی تعداد قوم میں بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس ذریعہ سے ایک معقول رقم کے بیت المال میں داخل ہونے کا یقین کیا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ تجارتی مال عموماً دور دراز ملکوں سے لائے جا تے ہیں (اور کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد وہ پر نفع طریقہ پر فروخت ہوتے ہیں اور مد (الف) کی نسلی افزائش بھی سال بھر گزر جانے پر موقوف ہے) اسی طرح کھیت اور باغات جو اموال نامیہ میں سب سے بڑھ کر مالیہ اور زکوٰۃ کا ماخذ ہے۔ سال بھر کے بعد ان سے پیداوار حاصل کی جاتی ہے یا کم از کم مختلف فصلوں میں مختلف قسم کے اناج اور پھل پک کر اور کٹ کر سال تک جملہ پیداوار مکمل ہو جاتی ہے ، اس لیے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے سال کی میعاد مقرر کرنا عین ثواب اور امر مناسب تھا۔پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ زکوٰۃ دہندہ اور وصول کنندہ دونوں کے لیے اسی میں آسانی ہے کہ ہر ایک جنس کی زکوٰۃ اسی کا کچھ حصہ ہو۔ مثلاً اونٹوں کے گلہ میں سے ایک اونٹنی لی جائے اور گائے، بیل یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے وہی جنس یعنی گائے یا بکری وصول کی جائے۔‘‘ دنیا کے تمام سچے مذاہب اگرچہ ابناء جنس کی خدمت اور حاجت مندوں کی اعانت کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں لیکن یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے محض تلقین و تعلیم ہی نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک سالانہ ٹیکس کا آئین قائم کر دیا جو اس ضرورت کو پورا کرے، اور اس کو اس درجہ اہم قرار دیا کہ نماز کے بعد اس کا ہی درجہ رکھا گیا اور قرآن کریم میں دونوں کو ایک ہی فہرست میں گنا کر اس کو بھی ایمان کی علامت قرار دیا۔ ترجمہ:’’اگر ہم ان لوگوں کو زمین مین اقتدار دیں گے،تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے۔‘‘ایک اور جگہ پر اس کا تقویٰ اور صداقت کی علامت قرار دیا گیا ہے:ترجمہ:’’اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیںجب عہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔‘‘زکوٰۃ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ادا کی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری دنیاوی زندگی میں بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چونکہ اسلام دین اور دنیا کے حسین امتزاج کا خواہاں ہے اس لیے وہ ایسے اعمال صالحہ جن کا تعلق افراد کی زندگی اور معاشرے کی بہتری سے ہونے کی طرف خصوصی توجہ دیتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے قیام کے حوالے سے زکوٰۃ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:’’پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘قرآن پاک میں ایک اورمقام پر اس کو معیت الٰہی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے:’’اور ان سے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی۔‘‘ اس لیے مانعین زکوٰۃ کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے عظیم الشان مجمع میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا اور جمہور صحابہؓ نے اس پر صاد کیا:’’بخدا میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق نہیں کروں گا اور ان لوگوں سے ضرور جہاد کروں گا جو ان کے درمیان فرق کر رہے ہیں۔‘‘نیز اس بارے میں اسلام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فرضیت زکوٰۃ کی عظمت کو ان صاف الفاظ میں بیان کیا۔ترجمہ:’’تاکہ یہ نہ ہو کہ مال و دولت صرف تمہارے دولت مندوں کے گروہ ہی میں محدود ہو کر رہ جائے۔‘‘