پاکستان کے حالات روز بروز سنگین ابتری اور بدحالی کی جانب جا رہے ہیں۔ریاست کی ناکامی اور عوام کی بدحالی کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔اشرافیہ ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مگن ہے۔عوام کی اکثریت بے چین‘ مضطرب اور غیظ و غضب سے بھری پڑی ہے۔جنہوں نے خاک و خون سے ہندو اور انگریز گٹھ جوڑ کو ناکام بنا کر آزاد اسلامی ریاست پاکستان بنایا تھا‘وہ خون کے آنسو رو رہے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ہندو نے مسلمان عوام کو معاشی اور بدمعاشی اور دین اسلام کی مخلصانہ پیروی سے دور رکھنے کے لئے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رکھے تھے۔مثلاً مسلم محلوں میں بھی دکانیں اور کاروبار ہندو بنیے کے پاس تھا۔اگر کوئی مسلمان‘ مسلم محلہ اکثریتی آبادی کے محلے میں دکان چلانے کی کوشش کرتا تو سرمایہ دار ہندو دکاندار 6سے 12ماہ قیمت خرد سے کم قیمت پر اشیاء فروخت کرتا رہتا تاوقتیکہ مسلمان دکاندار اپنی دکان بند کرنے پر مجبور ہو جاتا اور بعدازاں وہی ہندو دکاندار مرضی کی بلند ترین قیمت پر اشیاء فروخت کرتا اور پھر مسلم صارف کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔اسی طرح سود خور ہندو مسلمانوں کو نمود و نمائش اور رسم و رواج کی ادائیگی یعنی دنیوی چمک دمک کے لئے آسان سودی اقساط پر قرض دیتا اور قرض کا حجم بڑھا کر مقروض کے لئے قرض اور سود کی ادائیگی مشکل بلکہ ناممکن بنا دیتا تھا اسی طرح مقروض کا رہن رکھا ہوا گھر بار اور جائیداد پر قبضہ جما لیتا اور اسی طرح تہی دست مقروض کو بدترین غلامی کا شکار بنا لیتا تھا۔میرے والد گرامی کے دوست معروف مصور جمیل نقٹ مرحوم کے بڑی بھائی سید عبدالمقتدر بینکار تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہندو بنیے کا نیا کام بنک اور سودی کاروبار بینکاری کہلاتا ہے۔مذکورہ بالا تحریر کے باوجود قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد بنک دولت پاکستان سٹیٹ بنک آف پاکستان بنایا جس نے دور حاضر میں بیت المال کی نئی صورت اختیار کرنا تھا اور کہا کہ SBPپاکستان کے جملہ اقتصادی و مالیاتی امور کو سود سے پاک قرآن و سنت کے مطابق چلائے گا اور مغرب کے ظالمانہ مالیاتی و معاشی نظام سے مظلوم قومی و عالمی عوام کو نجات دلانے کا ذریعہ بنے گا۔ عالمی مالیاتی نظام میں امیر‘ امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے یعنی SBPمعاشی استحکام‘ مالیاتی مساوات کا نگران اور نگہبان ہو گا۔ پاکستان میں موجودہ مہنگائی‘ عوام کی قوت خرید میں ناقابل فہم حد تک کمی SBPکی نام نہاد نجکاری ہے جس کے ذریعے SBP کے کارسز پاکستان نژاد عالمی مالیاتی فنڈ IMFکے بے رحم اہلکار ہیں، جن کا کام پاکستان میں عالمی بنک ‘ عالمی مالیاتی فنڈ‘ ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ کے قرض اور سود کی ادائیگی کو بہر طور یقینی بنانا ہے۔اب SBP کا گورنر اور گورننگ باڈی کے اراکین حکومت پاکستان سے زیادہ آئی ایم ایف کے ماتحت ہیں۔ اب حکم آئی ایف کا چلتا ہے اب حال یہ ہے کہ ریاست اللہ کی ‘حکمرانی عوام کی اور حکم آئی ایم ایف کا چلتا ہے۔SBP کی رہن رکھی نجکاری کے بعد پاکستانی اقتدار اعلیٰ سے منسلک طاقتور ترین ادارے اور مذکورہ مناصب نمائشی‘ بے معنی اور کمزور ہیں۔ اس کمزوری کا سبب خود مختار SBP ہے جس کے ہاتھ میں پاک کرنسی روپیہ کا اجرا اور قدر کی تعیناتی ہے، اسی طرح ملک کے اندر عالمی مالیاتی کرنسی ڈالر کی قدر اور نگرانی کا اختیار بھی خود مختار SBP کے پاس ہے۔اس وقت حکومت پاکستان کے ہاتھ اور بس میں روپیہ ہے اور نہ ڈالر۔لہٰذا دریں صورت معیشت کی بحالی اور عوام کی خوشحالی شیخ چلی کے پلائو سے کم نہیں۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘ پاکستان کی موجود مالیاتی غلامی اور معاشی بدمعاشی کا بنیادی سبب نیازی سرکار کا SBP کو تحریری اور پارلیمانی توثیق کے بعد آئی ایم ایف کے انتظامیہ کے حوالے کرنا ہے ۔مذکورہ مالیاتی حوالگی کا نتیجہ ہے کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان جملہ حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کی منظوری SBP نے دینا ہے۔اسی طرح ترقیاتی پروجیکٹ بھی SBP کی اجازت سے طے ہو رہے ہیں پاکستان کی جملہ برآمدات و درآمدات کے معاملات بھی SBP نے طے کرنا ہیں، فی الحقیقت نیازی سرکار نے حکومت پاکستان کے مساوی SBP کے ذریعے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو پاکستان کا مالیاتی بادشاہ بنا دیا ہے، اس مذکورہ عالمی بادشاہت کو کون ختم کرے گا‘ اس کا جواب بھی وقت دے گا۔ فی الحال بات کرنا قبل از وقت ہے مذکورہ بالا معاشی حالات کی سنگینی کے باوجود یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان قرض اور سود کے بغیر بھی چل سکتی ہے؟ ریاست چل سکتی‘ شاید حکومت نہ چل سکے۔حکومتی ناظم اور منتظم آئی ایم ایف کی مرضی سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ الیکشن کمشن پاکستان کا عملہ اور معاملات اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPکے ذریعے طے ہوتے ہیں کیونکہ جنرل الیکشن کے دوران بھی کمشن کے تمام عملے کا معاوضہ اور دستاویزی سرٹیفکیٹ(اسناد) بھی یو این ڈی پی کی جانب سے جاری ہوئی ہیں۔ پاکستان کے حالات جتنے سادہ نظر آتے ہیں اتنے سیدھے نہیں حقیقت یہ ہے کہ ہماری بدحالی نظام اور انتظام کی خرابی کے باعث ہے جس کے لئے حکومت پاکستان مورد الزام ہو سکتی ہے‘ ریاست نہیں‘ ریاست تو وہ قیمتی گوہر نایاب ہے جس کو عالمی برادری ‘ عالمی اداروں کے ذریعے مرضی کے مطابق رکھنا چاہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ حکمران جب حزب اختلاف ہوتے ہیں تو نظام کی تبدیلی کے بات کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آ جائیں تو نظام کی مجبوری کا نظام لے کر قرض اور نام نہاد امداد کے نظام کو مضبوط تر کرتے چلے جاتے ہیں اس وقت پوری دنیا کے حکمران مالیاتی قرض دینے والے اداروں کے رہن منت یعنی مقروض ہیں لہٰذا نظام کی تبدیلی کا نام لیتے‘ بدلتے نہیں۔پاکستان میں بلند ہمت حکمران درکار ہیں جو نظام سے زیادہ ریاست کی سلامتی اور عوامی خوشحالی اور خوشحالی کو اولین ترجیح دیں۔