اشک گردوں صدف میں پالتے ہیں تب سمندر گہر اچھالتے ہیں خود فراموشیاں نہ پوچھ اپنی زندگی کا عذاب ٹالتے ہیں ہائے ہائے خاک اڑنے لگے جب آنکھوں میں سارے دنیا پہ خاک ڈالتے ہیں۔ جب تک توانائی ہے کسی کو اپنی بھی ہوش کہاں!بس جہاں بھی نفس اڑائے پھرے۔جب تک خون موجزن ہے اور زندگی سیٹیاں بجاتی ہے تب تک کسے آرام۔ یعنی آرام ہی آرام کہ بیداری تو نری اذیت ہے اور آگہی قیامت ۔حالات بہت کڑے اور کرخت ہیں ۔سب اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں حکومت ہو‘ اپوزیشن ہو یا عوام سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی: رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو بلکہ سب مل کر بھی اپنی اپنی نبیڑ رہے۔ سب نے مل کر حکومت کے لئے بھی مسئلہ پیدا کر دیا ہے ۔ پوزیشنیں بدل چکی ہیں۔حکومت کو عوام سے کہیں زیادہ اپنی فکر ہے کہ سیلاب بلانشیبی علاقوں سے انہیں پامال کرتا ہوا بالائی طرف رخ کر رہا ہے۔ حکومت کو بھی معلوم ہے کہ ان کو عوام نہیں بچا سکتی۔اگرچہ بہار کا موسم ہے اور اس گل رت نے ہوائوں میں ایک خوشگواراحساس پھیلا دیا ہے مگر حالات کی جکڑ بندیوں نے لوگوں کو الجھایا ہوا ہے۔ تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں جسے مکان کا کرایہ دینا ہے‘ یوٹیلیٹی بل ادا کرنے ہیں اور روز افزوں مہنگائی کا سامنا کرنا ہے اس کے تو ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں وہ آخر کہاں جائے کہ آئی ایم ایف کا وفد پھر آن بیٹھا ہے ۔ گیس کی قیمتیں تو بڑھیں گی جو پہلے ہی ہزاروں میں ہیں۔ لوگ واپس لکڑیوں پر بھی نہیں جا سکتے کہ دھواں ان کی برداشت سے باہر ہے کچھ نہ پوچھیے: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے کیسی مزے کی سرخی ہے کہ سیاحت کو فروغ دے کر بے روزگاری ختم کر سکتے ہیں پڑھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ کون کافر سیاحت سے انکار کر سکتا ہے بلکہ سیرو سیاحت کی ترکیب زیادہ بھلی محسوس ہوتی ہے چلتے ہو تو باغ کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے۔ مہنگائی کے اسیروں کے ساتھ تو یہ مذاق ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے بہت مزے کی بات کہی کہ محکمہ آثار قدیمہ کچھ نہیں کر رہا ‘موہنجو داڑو اور ہڑپہ سمیت تاریخی مقامات انگریزوں نے دریافت کئے یہ مقامات سیاحت اور روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں۔واقعتاً شہروں سے اٹھا کر نوجوانوں کو ان مقامات پر پہنچا دیا جائے۔ انور مسعود یاد آئے عبرت کی اک چھٹاک میسر نہ آ سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے۔ بلاول نے بھی اسی پانچ ہزار سالہ پرانی ثقافت وراثت پر فخر کیا تھا۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔ نوجوانوں کو تو چپ سی لگ گئی ہے اب تو بے چارے لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ سے بھی گئے۔ جو چند نوکریاں سیاسی قسم کی نکل آئی ہیں تو وہی اقربا پروری دیکھنے میں آئی ہے۔ میرٹ کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے کس کا نام لیں کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔۔ ایک تحریر میری نظر سے گزری ، بزدار صاحب کو عمران خاں کے بعد واحد لیڈر قرار دیا گیا تھا کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ بزدار عمران خان ہی ہیں۔ شکر ہے قائد اعظم کا ذکر نہیں کر دیا۔ کیا کہیں ‘ کیا لکھیں: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے اب اس شعر کو سچ مچ اس کے معنوں میں مت لیجیے گا کہ بعض اوقات طنز میں شعر معنی بدل لیتا ہے ویسے معیار کے ساتھ ہمیشہ سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جناب شہباز شریف نے جو میرٹ قائم کیا تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس نے بھی یہاں گڑ بڑ کی وہ خبر میں ضرور آ گیا یہ کوشش خواہ مریم نواز ہی نے کیوں نہ کی تھی۔ بات کسی اور طرف نکل گئی اس وقت رونق لگنے جا رہی ہے۔ جناب آصف زرداری اسلام آباد پہنچ چکے ہیں مجھے وہ ایک سطح پر وہ اچھے لگتے ہیں وہ اس نظام کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں: جو بھٹکتا ہے وہی راہ بن جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے یہ جو تاحیات باری لینے کا خواب ہے یہ سبھی دیکھتے آئے مگر ایک بات جس کے باعث پی ٹی آئی پر ترس آتا ہے وہ یہ کہ وہ اپنے ہی محبت کرنے والوں میں آپ بے وقعت ہو گئی۔ ویسے فراز نے کہا تھا’’جی چاہتا تھا آپ کہ رسوائیاں بھی ہوں‘‘آپ نے دیکھا نہیں بہت کچھ سامنے آ رہا ہے ۔ نیب اور براڈ شیٹ تنازع میں لندن میں حکومت کے بنک اکائونٹس منجمد ہو گئے ہیں اور یہ انتہائی سبکی کی بات ہے۔ سیاست تو چلتی رہے گی کہ جب تک عوام کے ساتھ یہ شغل سیاستدان جاری رکھیں گے اور انہی کے سر پر تو حکمران حکمرانی کرتے ہیں۔انہی کے نام پر وہ قرضے لیتے ہیں اور پھر انہی کو نچوڑ کر وہ قرضے ادا کرتے ہیں انہی کے لئے وہ نامقبول فیصلے کرتے ہیں اور اسی عوام کے برے وقت سے وہ اپنا اچھا وقت کشید کرتے ہیں۔ ذرا سا تذکرہ بے چارے ادیبوں کا بھی ہو جائے۔ جو راتوں کو لہو جلاتے ہیں: خون جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے بہت ہی پیارے اور باصلاحیت ادیب قاری ساجد نعیم میرے گھر تشریف لائے اور نہایت عمدہ تحفہ لائے یعنی ماہنامہ ندائے گل کا سالنامہ ۔ ان کی سرپرستی عہد کے خوبصورت فکشن نگار جمیل احمد عدیل کرتے ہیں۔ ان کو بھی اس نوجوان کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔اب جب کہ ضخیم رسالہ دیکھا اور چیدہ چیدہ اس میں شامل نگارشات دیکھیں تو حیرت زدہ رہ گیا کہ ابھی معاشرہ پوری طرح برباد نہیں ہوا کہ چند سرپھروں نے ادب کی شمع روشن کر رکھی ہے۔ یہ ادب ایک طرز زندگی ہے جہاں جسم روح کے بغیر ہے۔ اس کام کی تعریف و تحسیس اس لئے لازم ہے کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے بلکہ وہ سودا ہے جسے سودائے سر کہتے ہیں۔ میں تفصیل سے لکھتا مگر کیا کریں کسی کو شعرو ادب پڑھنے کا شغف ہی نہیں۔بہرحال یہ ندائے گل بہار کی آمد کا پتہ دے رہا ہے اس کے سرورق پر ادیبوں کی کہکشاں بھی دکھائی دیتی ہے۔شہزاد نیئر کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: اتنا نہ شش جہات کے پنجرے پہ ناز کر میں ساتویں طرف کو اگر چل پڑا تو پھر