ترکیہ میں صدر اور پارلیمنٹ کی 600نشستوں کیلئے انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے انتخابی مہم میں بھی شدت آر ہی ہے۔ 14مئی کو ہونے والے ان انتخابات کے نتائج پر پوری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ جنوبی ایشیاء کی طرح ترکیہ کے انتخابات خاصے رنگین،رقص و سرود و گانوں سے مزین ہوتے ہیں مگر حالیہ زلزلہ کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زائد اموات کی وجہ سے اس بارسیاسی جماعتوں نے رقص و موسیقی سے گریز کرتے ہوئے مہم کو سادہ رکھا ہواہے۔ اس آفت کے بعد آوازیں اٹھ رہی تھیںکہ چونکہ ملک کے گیارہ صوبو ں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، اس لئے باز آبادکار ی تک انتخابات کو اکتوبر یا اگلے سال تک موخر کیا جائے مگر صدر رجب طیب اردوان نے اس مطالبے کونظر انداز کرتے ہوئے جون میں طے شدہ شیڈول سے ایک ماہ قبل ہی مئی میں منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔ رمضان المبارک کے دوران حریف جماعتیں بینروں کے ساتھ مساجد کے سامنے اپنی موجودگی ظاہر کرانے کے لیے پانی، ملک شیک اور کھجوریں تقسیم کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ عید کے دن دارالحکومت انقرہ کے قلب میں واقع مالتے پہ مسجد کے پاس سڑ ک کی دوسری طرف ایک ترک قوم پرست جماعت کے کارکن نائٹ کلب کے اندر جشن منانے کیلئے جانے والے نوجوانوں کو لبھانے کیلئے ترکی کی مشہور مٹھائی بکلاوا اور ڈرنکس تقسیم کر رہے تھے۔ 27 مارچ کو ملک کی اعلیٰ انتخابی اتھارٹی سپریم الیکٹورل کونسل نے چار صدارتی امیدواروں کی نامزدگیوں کو قبول کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ 36 جماعتیں پارلیمانی نشستوں کے لیے انتخاب لڑنے کی اہل ہیں۔چار صدارتی امیدوار حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یعنی آق پارٹی کے امیدوار موجودہ صدر اردوان، اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما کمال کلیچی داراولو، ہوم لینڈ پارٹی کے محرم انجے اور آزاد امیدوار سینان اووان ہیں، جن کو نسل پرست پارٹیوں کے آبائی اتحاد (Ancestral Alliance) نے حمایت دی ہے۔ محرم انجے دراصل سی ایچ پی کے رکن تھے، پچھلے انتخابات میں اردوان کے خلاف امیدوار تھے۔ انہوں نے سی ایچ پی کو چھوڑ کر اپنی ہوم لینڈ پارٹی تشکیل دی ہے، جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن ووٹوں کی تقسیم کا سبب بنیں گے۔ ان کو تقریباً 8فیصد ووٹروں ، جن میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ، کی حمایت حاصل ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ایک ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ دونوں کلیدی امیدواران کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔ پولسٹرز کا خیال ہے کہ 15% ووٹر ، جن میں پچاس لاکھ نئے نوجوان ووٹر شامل ہیں جو ابھی تک کسی پارٹی سے منسلک نہیں ہیں،ان کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ 14مئی کو اگر کوئی امیدوار مطلوبہ 50فیصد اور ایک ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو انتخابات کا دوسرا راونڈ 28مئی کو ہوگا، جس میں صرف پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار ہی قسمت آزمائی کرینگے۔ تاہم اپوزیشن کیلئے طمانیت یہ ہے کہ کرد وں کی پارٹی پیپلز ڈیموکریسی پارٹی (ایچ ڈی پی)، جو کہ پارلیمنٹ میں 12 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسری سب سے بڑی جماعت ہے، نے اپنا صدارتی امیدوار کھڑا نہیں کیا اور کلی چی داراولو کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اسکا توڑ کرنے کیلئے اردوان نے کرد اسلام پسند فری کاز پارٹی (HUDAPAR) کو اپنے اتحاد میں شامل کرلیا ہے جو کرد ووٹو ں کو تقسیم کرکے پوری طرح اپوزیشن کی جھولی میں گرنے نہیں دیگا۔ بین الاقوامی میڈیا کے جائزے کے برعکس، جو دو بڑے اتحادوں کواسلامی انتہا پسند اور سیکولر گروپوں میں بانٹتا ہے، ان کے ڈھانچے پر معروضی نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں طرف نظریاتی خطوط سے پرے رنگا رنگ ،متنوع اتحادتشکیل دئیے گئے ہیں۔ سینٹر رائٹ آق پارٹی کی قیادت میں حکمران جمہور اتفاقی یعنی عوامی اتحاد میں پہلے چارپارٹیاں تھی، جن کی تعداد اب آٹھ تک پہنچی ہے۔ ان میں شدت پسند ترک قوم پرست نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP)، اسلامسٹ گریٹ یونٹی پارٹی (BBP)، کرد اسلام پسند فری کاز پارٹی (HUDAPAR)، سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی اسلامسٹ نیو ویلفیئر پارٹی، بائیں بازو کی ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی، ترک قوم پرست DSP اور لبرل قدامت پسند ٹرو وے پارٹی DYP ہے۔ سیکولر سینٹر لیفٹ سی ایچ پی کی قیادت میں حزب اختلاف کے اتحاد، جو دراصل چھ پارٹیوں کا مجموعہ ہے، میں اب 17 سیاسی جماعتیں شامل ہو گئی ہیں۔اس میں سابق وزیر داخلہ میرل اکسنرکی شدت پسند ترک قوم پرست IYI (گڈ پارٹی) سے لے کر لبرل قدامت پسند جمہوریت اور ترقی پارٹی (DEVA) شامل ہیں۔ ترکیہ کی مرکزی اسلام پسند جماعت یعنی سعادت پارٹی، جس کی قیادت تیمل کارامواولو کر رہے ہیں ، CHP کی قیادت والے حزب اختلاف کے اتحاد میںشامل ہے۔ اس اتحاد کا واحد ایجنڈہ اردوان کوطاقت سے باہر کا راستہ دکھانا ہے۔ بھارتی سیاست کے تناظر میں ان انتخابات کو بالترتیب 1977 اور 1989 میں کانگریس پارٹی کی قیادت میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسے طاقتور حکمرانوں کو شکست دینے کیلئے ایسے ہی جنتا اتحاد کی تشکیل سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ جس نے ان حکمرانوں کو باہر کا راستہ تو دکھا دیا مگر خود تضادات کی زد میں آکر ڈیڑھ دو سال میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور پھر کانگریس پارٹی کیلئے اقتدار کا راستہ صاف کردیا۔ (جاری ہے)