خاکم بدہن، ترقی کا نعرہ ہمیں ماضی میں تو راس نہیں آیا۔ ایوب خان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ حضور والا آپ کو دس سال شہنشاہی کرتے ہو چکے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ عشرہ ترقی منائیں۔ پھر کیا ہوا؟ یہ سب جانتے ہیں۔ اب جانے کس سیانے نے ہمارے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں حالات کو سمجھنے میں وقت لگا ہے‘ اب ہم کچھ کر کے دکھائیں گے۔ آپ کہیں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ اعداد وشمار اہم اکٹھے کئے دیتے ہیں۔ اس میں ایک تکنیکی خلوص بھی شامل تھا۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین ذہین آدمی ہیں۔ پہلے تو انہوں نے ملک میں معیشت کی تباہی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ پھر جب باگیں سنبھالیں تو صاف کہا کہ جب تک ترقی چھ سات فیصد نہیں ہوتی اور مہنگائی کم نہیں ہوتی‘ ملک کی تباہ شدہ معیشت سنبھال نہیں سکتی۔ بات تو ان کی درست تھی۔ پھر یہ بات کوئی ان ہونی نہ تھی۔ اس ملک میں اتنی جان ہے کہ وہ معیشت کی یہ سطح حاصل کر سکے۔ مشکل یہ تھی کہ ہم نے تو یہ نقشہ کھینچ رکھا تھا کہ کورونا اور سابق حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہمیں بیوروکریسی نے گمراہ کیا‘ ہم ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال نہ سکیں۔ مطلب یہ کہ یہ سیاسی بیانیہ عملی طور پر ترقی نہیں کرنے دے گا۔ چنانچہ کچھ سمجھایا ہوگا۔ یہ کہ ایک دن لوگوں کی آنکھیں اس بیان سے خیرہ ہوئیں کہ وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ ہم نے اب تک جو کچھ کیا‘ اس پر ہمیں فخر ہے۔ لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ تاہم دو چار دن بعد ہی اعداد و شمار کے وفاقی ادارے نے اعلان کیا کہ ہم اس سال 3.91 فیصد شرح نمو حاصل کرلیں گے۔ سیاست دانوں نے اسے یوں بیان کیا کہ شرح نمو 4 فیصد ہو گئی ہے۔ پھر اعلان آیا کہ جشن منائو اگلے سال یہ شرح نمو یا ترقی کی رفتار 4.8 فیصد ہو جائے گی۔ بقول شاہد حسن صدیقی اگر اعداد و شمار درست بھی ہیں تو شرمناک ہیں۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں وضاحت کی کہ خطے میں ہم سب سے پیچھے ہیں اور اس شرح نمو کا تعلق کروناسے ہے۔ کیسے مغرب کی ضرورتیں بڑھی ہیں اور انہیں ہماری مصنوعات کی ضرورت پڑی ہے او رکیسے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر یہ سب عارضی ہے۔ ملک کو ایک ایسے ترقی کی سفر کی ضرورت ہے جو تیزی سے اوپر جانا چاہیے۔ بہرحال اس بیانئے کی شوکت ترین نے بہت احتیاط سے تائید کی کہ بھئی یہ میرا ادارہ نہیں‘ آزاد ادارہ ہے اور وزارت منصوبہ بندی کے ماتحت ہے‘ ہم خزانہ والوں کا اس سے کوئی حصہ نہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے تین فیصد شرح نمو کی بات کی تھی جس پر لوگوں نے بڑا مزہ کیا تھا مگر وہ اس بات پر بعد میں بھی قائم رہے۔ تاہم حکومت نے چار فیصد کا ڈھنڈورہ اتنا پیٹا کہ لگتا تھا کہ آئندہ الیکشن اسی نعرے کے اوپر جیت لیا جائے گا۔ دل لگتی بات کہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار ہماری فصلیں اچھی ہوئی ہیں۔ گندم‘ گنا‘ چاول‘ مکئی وغیرہ۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جو یقینا حوصلہ افزا ہیں۔ ویسے تو پیپلزپارٹی والے بھی ناز کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے زمانے میں ملک میں گندم میں خود کفیل کر دیا تھا۔ بہرحال گندم‘ کپاس وغیرہ جو تباہی مچی اس میں کورونا کا کوئی دخل نہ تھا‘ یہ سب اس سے پہلے ہو چکا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیمنٹ کی پیداوار بڑھی ہے۔ کیوں بڑھی ہے۔ حکومت کہے گی کہ کنسٹرکشن کا کاروبار بہتر ہوا۔ ماضی میں ایک بار یہ سیمنٹ بھارت اور افغانستان گیا تھا، انہیں ضرورت تھی۔ چلئے اس بحث کو چھوڑیئے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ہمارے ہاں موٹر انڈسٹری بہتر ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ آٹو موبیل میں تیزی آناکیا ملک کی معاشی ترقی کا اچھا اشاریہ ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے پاس اور کوئی صنعت ہے ہی نہیں۔ ہر بات کے پیچھے بہت کچھ ا ور ہے کہا جارہا ہے‘ مگر یہ تسلیم کرنے میں کسی کو آر نہ ہونا چاہیے کہ ہماری معیشت نے انگڑائی لی ہے مگر انگڑائی سے کام نہیں چلا کرتے۔ معیشت کو انگڑائی کی نہیں ایک جست کی ضرورت ہے۔ ہم اگلے سال 4.8 کی نوید دے رہے ہیں۔ اگر اسحاق ڈار ہی ہوتے تو معیشت کو سات فیصد تک پہنچنا تھا۔ کورونا کی وجہ سے معیشت سکڑ تی مگر مابعد کورونا کے فوائد اسے بھی حاصل ہوتے۔ اب بھی اسے سیاسی نعرے کے طور پر مقبول نہ بنائیے بلکہ اسے خالص اقتصادی فائدے کے لیے استعمال کیجئے۔ اسد عمر کہتے ہیں اس سال ترسیلات زر 22 ارب ڈالر ہیں۔ اگلے سال 29 ارب کی توقع ہے اور اس سے اگلے سال 31 ارب کی۔ مطلب یہ کہ اس میں اضافہ ایک حد تک ہوگا اور ہو سکتا ہے نہ ہو۔ ترقی کے نعرے کو سیاست بنانامہنگا پڑتا ہے‘ ترقی کر کے دکھانا اصل کمال ہے۔ کیاہے کہ اب کے سب اشاریے درست ہوں مگر غریب کے پیٹ میں روٹی نہ ہو۔ آپ نے صحت کارڈ تو لوگوں کو تھما دیئے مگر جہاں علاج مفت ہوتا تھا اسے مہنگا کردیا۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں ٹیسٹ سستے یا مفت تھے‘ ادویات مفت ملتی تھیں‘ اب مگر نہیں۔ غریب کا پیٹ خالی ہے‘ نوکریاں ختم ہو گئی ہیں‘ کاروبار تباہ نہیں ہوا تو رو بہ زوال ضرور ہے۔ اب حالات پیدا ہوئے ہیں تو اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنا چاہئیں۔ دیکھئے سٹاک مارکیٹ شاید 46 ہزار رہا‘ 48 یا زیادہ تک جا پہنچی ہے۔ اسحاق ڈار کے زمانے میں یہ 52 تھی۔ اس کے اثرات عام آدمی پر نہ تھے کہ ہمارا اکثر کاروبار نارمل تھا۔ اب بھی ایسا ہے۔ اعداد وشمار میں بھی بہت کنفیوژن ہے۔ میں یہاں حقائق بیان کر کے کوئی تنازع پیدا نہیں کرنا چاہتا‘ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں معیشت میں سیاست نہ کیجئے۔ میری یہ درخواست حکومت سے بھی ہے اور اپوزیشن سے بھی۔ چند آزاد ماہرین معاشیات سچ بول رہے ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق‘ حفیظ پاشا‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی۔ اس وقت سچ کی بہت ضرورت ہے تاکہ ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں۔ عوام آپ کے اشاریے نہیں دیکھتے‘ ان کی نگاہ اپنی حالت زار پر ہوتی ہے۔