27دسمبر 1979ء کی شب روس نے کابل میں اپنی سرخ فوج اتاری اگلی شام استاد گرامی پروفیسر محمد منور صاحب کے درویش صفت بزرگ دوست ڈاکٹر نذیر قریشی صاحب کے مطب میں محفل خاص کے دوست احباب بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ روس افغانستان فتح کرنے میں ناکام رہے گا۔ روسی فوج کو شکست ہو گی اور باقی ماندہ ہزیمت شدہ فوج افغانستان خالی کر دے گی۔ مزید برآں ڈاکٹر صاحب نے روس کو بدمست ہاتھی کہا جس کی سونڈ(ناک) میں چیونٹی چلی گئی ہے اور روس کو اسی طرح ڈھیر کرے گی جس طرح مچھر نے نمرود کو ڈھیر کیا۔ وقت گزرتا گیا۔ روسی شکست کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ کی اصولی حمایت سے افغان مجاہدین کی کامیاب مزاحمت کے آثار نمایاں ہونے لگے تو استاد گرام پروفیسر محمد منور صاحب نے سوال کیا کہ اب افغانستان میں فاتح مجاہدین کی حکومت بنے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا نہیں فی الحال روس واپس جائے گا مجاہدین کی حکومت نہیں بنے گی بلکہ مجاہدین اور حملہ آور روس‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور یورپ کی ملی جلی مخلوط حکومت بنیں گی تاوقتکہ پاکستان کے اندر مذکورہ عالمی قوتوں اور اداروں کے خلاف مزاحمتی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔ پاکستان میں عظیم مزاحمتی حکومت کا قیام مقامی اور عالمی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو گی۔ افغانستان میں تاحال ملی جلی‘ مخلوط اور وسیع البنیاد سرکار سازیاں ہو رہی ہیں اور پاکستان میں عظیم مزاحمتی تبدیلی سے جنم لینے والی مضبوط ‘ محفوظ ‘ مستحکم اور طاقتور سرکار سازی کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد قریشی صاحب لاہور کی ایک منفرد اور یگانہ روزگار روحانی شخصیت تھے۔ ڈاکٹر موصوف استاد گرامی اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد منور صاحب کے دوست تھے۔ڈاکٹر صاحب کے حلقہ احباب میں گورنر مغربی پاکستان عبدالرب نشتر اور وفاقی وزیر تعلیم محمد علی ہوتی وغیرہ تھے۔ یہ دونوں اصحاب قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ڈاکٹر قریشی صاحب خود بھی تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے اور غالباً ڈاکٹر صاحب یا ان کے بزرگ آل انڈیا مسلم لیگ جالندھر کے نائب صدر تھے۔ راقم اپنے استاد گرامی کی معیت میں 1977ء سے نومبر 1990ء تک ڈاکٹر صاحب کی بیٹھک ہال اور بیڈن روڈ پر واقع نالے کی گلی میں رہائش پذیر تھے اور عام طور پر ناقابل علاج مریضوں کا علاج معالجہ کرتے تھے۔آپ نے 1935ء میں کلکتہ میڈیکل کالج سے ایلو پیتھک ڈگری بمقابل حالیہ ایم بی بی ایس حاصل کر رکھی تھی۔ راقم تقریباً13’14برس ڈاکٹر صاحب کی روحانی بیٹھک کا سامع اور ناظر رہا ہے۔ استاد گرامی کا ڈاکٹر قریشی صاحب سے ملک کے معروف انکم ٹیکس وکیل اور ہائی کورٹ لاہور کے جج محمد امین بٹ کے ذریعہ 1972ء میں ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو روحانی حقائق کا مرقع ہوتی تھی ان کا کہا یا بتایا اکثر و بیشتر پورا ہوتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی(16دسمبر 1971ئ) کے وقت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ جدائی عارضی ہے۔ پھر مل جائیں گے مگر وقت لگے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے کوئی بچا سکے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھٹو کی معزولی اور اسیری کے وقت فرمایا کہ بھٹو اسیری میں پھانسی چڑھے گا۔1971ء کے صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن کے بارے میں کہا کہ ان کا ہرنا نہ ہرنا برابر ہے۔ تیز رفتار گاڑی کے بریک لگ گئی ہے۔ دیکھیں کب رکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سقوط ڈھاکہ کے وقت ہی فرمایا تھا کہ بھٹو کے بعد ایک اور نرم خو مگر مضبوط جرنیل آئے گا۔ اس کے بعد پاکستان میں جمہوری فوجی ملی جلی سرکار سازیاں ہوں گی۔حالات کی اسیری کا یہ حال ہو جائے گا کہ لوگ گھر سے باہر لوگ گھر سے باہر نکلنا بھول جائیں گے۔ اس دور میں حکومت‘ عدالت اور سب بے معنی ہو جائیں گے۔ پھر فوجیوں کی ایک ٹیم آئے گی جو نیشنلسٹ (National) کہلائے گی۔ اس دوران کشمیر خود مختار اور افغان مخلوط سرکار کے حالات بھی دگرگوں ہوں گے۔ آنے والی فوجی ٹیم پاکستان کے اندر حالات دگرگوں ہوں گے۔ آنے والی فوجی ٹیم پاکستان کے اندر حالات درست کریں گے۔ خود مختار کشمیر کا پاکستان سے الحاق کریں گے۔ افغانستان میں پاکستان کی حلیف حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے اور پھر ہندو بھارت کے ساتھ جنگ کر کے سازش دراندازی اور مداخلت کا سبق سکھائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ پاکستان کی ٹرین دیکھی جس کے ڈبے ٹوٹے پھوٹے ہیں لوگ گتھم گتھا ہیں اور یکدم منظر بدلتا ہے۔ ٹرین خوبصورت سبک رفتار ہے انجن میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ معروف قانون اے کے بروہی(A.K Brohi)کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بینظیر بھٹو کی 1986ء میں لاہور آمد کے موقع پر کہا کہ بینظیر کی موت پرتشدد(صورت میں ہو گی ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاک امریکہ تعلقات نمائشی اور زیبائشی تھے۔ مرضی ضیاء الحق اور پاکستان کی چلتی تھی۔ صدر رونالڈ ریگن کے برسر اقتدار غالباً 1983ء آنے پر نائب صدر بش سینئر کی لاہور آمد ہوئی اور بش سینئر کو بظاہر عوامی جلوس کی شکل میں گورنر ہائوس پنجاب پہنچنا تھا۔ مال روڈ بند تھی جلوس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ بش سینئر امریکہ کا اگلا صدر ہو گا۔ بش سینئر ریپلیکن پارٹی (Republican Party)کی جانب سے 1981ء تا 1989ء امریکہ کے نائب صدر رہے اور بعدازاں 1989ء تا 1993ء امریکہ کے صدر رہے۔ امریکی تاریخ کا یہ غیر معمولی واقع تھا کہ کسی بھی پارٹی کا صدر تقریباً 3بار متواتر صدر بنا ہو۔ کویت سے عراقی افواج کا انخلاء اور مشرق وسطیٰ میں امریکی چیرہ دستی کا ذکر کیا اور بتایا کہ وقت کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے دو بڑی اسلامی ریاستیں Emperisابھریں گے جو اسرائیل کا ناسور نابود کر دیں گی۔ افغانستان سے روسی فوجی انخلاء (15فروری 1989ئ) کے وقت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ روسی فوج جا رہی ہے مگر اب روس‘ امریکہ و اتحادی ممالک مجاہدین کے ساتھ مل جل کر وسیع البنیاد سرکار سازیاں کریں گے ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا کہ امریکہ کا بحیثیت واحد سپر پاور کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں۔ یہ 50ریاستوں کا اتحادی مجموعہ(ریاستہائے متحدہ امریکہunited state of Amereca)ہے اور یہ جلد یہ 50ریاستیں وفاق سے علیحدہ ہو کے خود مختار ہو جائیں گی۔ نیز فرمایا کہ امریکی و یورپی حالات بھی اس قدر دگرگوں ہو جائیں گے کہ ان ملکوںمیں جمہوری حکومتںی ختم ہو جائیں گی اور فوجی حکومتیں (مارشل لائ) قائم ہو جائیں گی۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی