گرفتاریوں کا موسم شروع ہوچکا‘ سیاستدانوں کے ساتھ صحافیوں کی گرفتاریاں‘ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت حواس باختہ ہوچکی ہے۔ حکومت کے کوئی پیر نہیں رہے اور اب وہ دھونس دھاندلی اور زور زبردستی سے اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ انتخابات سے فرار کی خواہش پر الگ رالیں ٹپکتی ہیں، کیا موجودہ دور میں ایسا ہوسکے گا؟ 10ماہ پہلے جب موجودہ تیرہ جماعتوں کا پی ڈی ایم اتحاد اقتدار میں آیا‘اس کے بعد پے در پے صحافیو ں پر مقدمات کی بارش کردی گئی۔ اس تناظر میں سارے واقعات عوام کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔حکومت نے پہلے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل پر مقدمہ درج کیا‘اعظم سواتی پر مقدمات کی بوچھاڑ کی گئی‘ان کیساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا‘وہ سب کے سامنے ہے۔ فواد چوہدری پر حالیہ مقدمہ اور ان کی رہائی تک کی تمام صورتحال‘اسی طرح اب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی گرفتاری، پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ اور سینئرصحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری تک کے سارے معاملات نے حکومت کی ساکھ مجروح تو ضرور کی ہے لیکن حکومت مخالف سمت سے اٹھنے والی آوازوں کو دبا نہیں سکی البتہ حکومت کی اپنی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ عمران خان پر بھی جس طرح پے در پے مقدماتدرج کئے گئے اس سے بھی حکومت کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی اور تحریک انصاف‘اس کے چیئرمین کی مقبولیت میںبے حد اضافہ ہوا۔ لگتا ہے کہ حکومت اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کیلئے تیار نہیں‘ حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے‘اس کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ ملک کی تمام جماعتیں ایک اتحاد کی صورت میں یکجا ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کیخلاف کوئی بھی سیاسی جماعت نہ ہولہذا جیسے ہی تحریک انصاف تنقید کرتی ہے یا حکومت کی بدترین کارکردگی پر کوئی صحافی آواز بلند کرتا ہے تو مقدمات کا سہارا لے کر ریاستی مشینری کو جس طرح حرکت میں لایا جاتا ہے اس سے جمہوریت شرما چکی ہے۔ وطن عزیز میں عملی طور پر جمہوریت ہے یا نہیں؟ یہ سوال ملک کے طول و عرض میں کیا جارہا ہے اور حکومت اتنی نالائق ہے کہ اس سوال کو روکنے کی جستجو میں مکمل طو ر پر حواس باختہ ہوچکی ہے‘ اندازہ لگائیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا‘ جس کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مختلف نکات کئی حقائق کو بے نقاب کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی ذمہ داران بین بجاتے ہیں کہ عمران خان کو کوئی گولی ہی نہیں لگی‘ایسے حالات میں کیا حکومت کی ساکھ عوامی حلقوں میں بحال رہ سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ موجودہ حکومت صحافیوں پر اتنی ڈھٹائی سے بار بار مقدمات درج کرتی ہے اور پوری ڈھٹائی کیساتھ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے‘ کیا جمہوری معاشروں میں ایسا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ سینئر صحافی کی لاہور ائیر پورٹ سے گرفتاری پر کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای)نے اپنے مذمتی بیان میں درست کہا ہے کہ صحافی کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کرنا بلاجواز‘انتہائی افسوسناک اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا باعث ہے۔سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے کہا کہ پیکا کے انتہائی متنازعہ اور کالے قانون کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے‘محض صحافیوں کی گرفتاری کیلئے مقدمات میں سنگین نوعیت کی دفعات شامل کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ ایف آئی اے حکومتی ایما پر صحافیوں کے خلاف آلہ کار بنی ہوئی ہے‘ انہوں نے کہا کہ بدترین معاشی حالات سنبھالنے کی بجائے حکومت صحافیوں کو گرفتارکرنے میں مصروف ہے۔ حکمران تمام صحافیوں کو ایک ساتھ ہی گرفتار کرلیں تو شاید انہیں سکون مل جائے‘آمریت کے ادوار میں آئین کا رونا رونے والے برسراقتدار آکر آرٹیکل 19کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ کاظم خان نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ عمران ریاض خان پر متعصبانہ مقدمات ختم کرکے فوری رہا کیا جائے‘صحافیوں کیخلاف ماضی میں بھی مقدمات درج ہوتے رہے ہیں لیکن جس طرح موجودہ تیرہ جماعتوں کا حکومتی اتحاد صحافیوں کی آزادی پر شب خون مار نیمیں مصروف ہے‘اس کی نظیر پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بھی نہیں ملتی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس حکومتی اتحاد میں پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی شامل ہے‘جو ایوب خان کے دور سے لیکر ضیاء الحق کی آمریت تک بدترین غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور ریاستی مشینری کے ظلم و جبر کا نشانہ بنیں لیکن اس کے باوجود وہ بھی اقتدار کے زعم میں ہر جمہوری و غیر جمہوری اقدامات کا حصہ بنتی چلی جارہی ہیں۔ ہر حکومتی پالیسی ناکامی کا بدترین شاخسانہ ہے‘حکومت کی ہر کارکردگی انتہائی ابتری اور بحران کی داستان سنا رہی ہے‘ اوپر سے حکومت کی عوام میں کوئی ساکھ نہیں رہی‘ان کا سیاسی مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے‘ لہٰذا وہ ہر حال میں حقائق کو دبانے کیلئے جمہوریت کے لبادے میں غیر جمہوری ہتکھنڈوں کا سہارا لے رہی ہے ۔اس لئے بہتر ہے کہ غیر جمہوری طریقوں سے سیاسی رہنماؤں‘کارکنوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ‘محترمہ مریم نواز ہوں یا کوئی اور‘وہ موروثی سیاست پر بے ڈھنگی دلیل تو دے سکتی ہیں‘لیکن صحافیوں کی گرفتاری اور اس کے بعد کون صحافی ہے یا نہیں؟ اس کا سرٹیفکیٹ بانٹنے کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں‘ یہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے‘کسی کی جاگیر نہیں! تماشے ملاحظہ ہوں: تمام تر گرفتاریوں کے باوجود پی ٹی آئی کو وزیر اعظم اے پی سی میں دعوت دے رہے پیں، " آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں".