اگر آج کوئی مسلمان ملکوں کی قیادت کرسکتا ہے تو وہ صرف ایک ہی ملک ہے اور وہ ہے ترکی، چھک چھک چلتی ریل گاڑی کے کمپارٹمنٹ میںلیکچرار صاحب نے اس قطیعت سے کہا کہ گویا وہ کسی عدالت کے جج ہیں اور انہوں نے بس فیصلہ سنا دیا ہے ،ان کی اس بات پر ساتھ بیٹھے نوجوان مسافر کے لبوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ آگئی جسے سمیٹتے ہوئے اس نے کہاکہ دیکھیں عمومی تاثر پر نہ جائیں خود کھوج کیجئے کہ سچ کیا ہے ۔ یہ نوجوان گویالیکچرار صاحب کے خیالات کی نفی کر رہا تھا کہ ترکی میں ایسی اہلیت نہیں ہے۔میں راولپنڈی سے کوہاٹ جانے والی ریل گاڑی میں بیٹھا یہ سب سننے پر مجبور تھا کہ ان ہی کے ساتھ بیٹھا تھا،میرے ساتھ ایک کلین شیو نوجوان لیکچرار تھے ان کے ساتھ بیٹھے مولوی صاحب اپنی وضع قطع سے تبلیغی جماعت سے معلوم ہوتے تھے جو بالکل خاموش تھے ان کے سامنے بیٹھے دونوں نوجوان اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے تھے ،ریل گاڑی نے راولپنڈی کا پلیٹ فارم چھوڑا تو تھوڑی دیر میں کمپارٹمنٹ میں پھیلی اجنبیت بھی رخصت ہوگئی،مسافر آپس میں گپ شپ کرنے لگے گفتگو کا آغاز اخبار کی ایک خبر سے ہواتھا اور پھر یہ گفتگو اسلام آباد سے ہوتی ہوئی جدہ ، غزہ او ر انقرہ پہنچ گئی دونوں نوجوان حالات حاضرہ سے واقف تھے لیکن ان کا مسئلہ اپنے نظریئے اور عقیدے کی عینک سے ہی سب کچھ دیکھنے کاتھا ۔ میں اس گفتگو سے زیادہ باہر کے مناظر دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا اور دوڑتی بھاگتی ریل کی کھڑکی سے یہی کررہا تھا لیکن جب ان طالب علموں نے ترکی کے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار شروع کیا اور یہ بتایا کہ ترک خواتین کا اسکارف سے رجوع اسلام پسندی نہیں بلکہ ثقافتی اقدام ہے تو رہا نہیں گیا میں اپنے سیل فون سے چھیڑچھاڑ کرنے لگا البم میں جا کر اپنے دورہ ترکی کی تصاویر نکالیں اور ایک تصویر ان کے سامنے کر دی ،یہ تصویر استنبول کی ایک مسجد کی تھی جس میں خواتین کے لئے مخصوص گوشہ میں ہینگر پر لمبے لمبے عبایا لٹک رہے تھے وہ وضاحت طلب نظروں سے دیکھنے لگے تب میں مسکراتے ہوئے گویا ہوا’’یہ استنبول کی ایک مسجد ہے وہاں تقریبا تمام بڑی مساجد میں خواتین کے لئے عبادت کا گوشہ محفوظ ہوتا ہےers wood divd کی مددسے پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،یہاںہینگرز رپ لمبے لمبے ڈھیلے ڈھالے عبایا موجود ہوتے ہیں جو ان خواتین کے لئے ہوتے ہیں جو چست جینز پہن تو لیتی ہیں لیکن اس حلئے میں رب کے حضور پیش ہونے سے شرمندہ ہوتی ہیں، وہ یہ عبایا پہن لیتی ہیں پھر ایک وقت آتا ہے انہیں یہ عبایا پہننے کی ضرورت نہیں ہوتی ،سلیقے کا لباس پہننا آجاتا ہے ،کہنایہ ہے کہ ترک عوام کسی خا ص شخصیت کی تو شاید حما یت نہ کریں لیکن انہوں نے اسلام کو بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ۔ ترکی کبھی ا ایک سخت سیکولر ملک تھاجس کے سیکولر آئین کی محافظ اسکی فوج تھی۔ ترکوں پر نافذ ہونے والا نیشنلزم اور سیکولرزم ایسا کڑا تھا کہ عربی زبان تک کو ترکی میں اجنبی کردیا گیا۔اذان کا ترکی زبان میں ترجمہ کرکے عربی زبان میں اذان پر پابندی عائد کردی گئی ،مسجدیں ویران ہوگئیں مجھے میرے ایک فوجی دوست نے بتایا کہ اسے ترکی جانا ہوا تووہاں ایک ترک آفیسر نے بتایا کہ ڈیوٹی کے دوران ہمیں نماز پڑھنے کی ممانعت تھی۔ ہماری پتلون کی کریز چیک کی جاتی تھی کہ گھٹنے کے پیچھے پتلون پر شکنیں تو نہیںایسا ہوتا تو سامنے والے کی پیشانی پر شکن آلود ہوجاتی کہ اس فوجی نے کہیں نماز پڑھی ہے۔ اسی ترکی نے عالم اسلام کے بجائے یورپ کیلئے بازو وا کئے رکھے یورپی یونین میں جانے کے لئے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے۔ یہ وہی ترکی تھا جس کے سیکولر دور میں بنک پر بنک ڈیفالٹ کر رہے تھے۔ ترک کرنسی کا حال یہ تھا کہ چائے کا بل ہزاروں لیرا میں ادا کرنا پڑتا لیکن ترکی کے اس تاریک معاشی دور کاسیکولر دانشورحیرت انگیز طور پرکم ہی ذکر کرتے ہیں نہ کوئی سیکولرقوتوں کو اسکا ذمہ دار قرار دیتا ہے عدنان میندرس سے اربکان اور اربکان سے اردگان تک ایک طویل تحریک نے ترکی میں وہاں کے عوام کی مرضی سے خواتین کو سروں پر اسکارف دیا ، مسجدوں کو آباد کیا تو سیکولر اور ملحدین سے یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ ترک وزیر اعظم اردگان بادشاہ نہیں ہے کم یازیادہ وہ ترکوں کی مرضی سے ہی اقتدار میں ہے۔ اس کے اقدامات کو ترک عوام کی اکثریت پسند کرتی ہے جو پالیسیاں پسند نہیں اس پر تنقید بھی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے کہ وہ تنقید سے مستثنیٰ نہیں، لیکن سچ یہی ہے کہ اس وقت ایٹمی قوت نہ ہونے کے باوجود ترکی ہی ہے جوامریکہ ،اسرائیل ،فرانس کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ، اس کا رہنما پوتوں کے قرآن حفظ کرنے پرخوشی میں الحمدللہ کہتا ہے ،مساجدمیں نماز جمعہ کے اجتماعات سے خطاب کرتا ہے اور یہی اسکا جرم ہے۔ لیکن کیا ترکی نے ان کے دور میں کچھ بھی نہیں کیا ؟ ترکی کی آٹو نڈسٹری اس وقت پندرہ بلین امریکی ڈالر کا حجم رکھتی ہے ۔یورپ میں کمرشل گاڑیاں بنانے میں ترکی دوسرے نمبر پرہے ،ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق چین کے بعد G-2ممالک میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشت ترکی کی ہے دفاعی ساز و سامان بنانے والی دنیا کی سوبڑی کمپنیوں میں ترکی کی سات کمپنیاں شامل ہیں ،اس وقت ترکی کی ڈیفنس انڈسٹری گیارہ بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری لئے ہوئے ہے۔ ترکی نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے کڑی محنت کی ہے وہ اس مقام کا سزاوار ہے اور مزید آگے جارہا ہے ہمار ے ملک میں سیکولر طبقہ ترکی سے چڑنے لگا ہے وہ اردگان کے پیچھے پڑا رہتا ہے حالاںکہ یہ مواقع انہیں یہاں بھی میسر ہیں وہ اپنی پرخاش یہاں بھی نکال سکتے ہیں لیکن وہ سب مسلمانوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں تو جناب دیکھتے رہیں جلتے کڑھتے رہیں ۔