آج خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ہر سال کی طرح ہر آج بھی دنیا بھر میں صنفی امتیاز کے خاتمے ‘ عورت کا استحصال روکنے‘ مسائل کے اسباب اور تدارک پر غور و فکر کے لئے سیمینارز کا انعقاد اور خواتین کی تکریم اور حقوق کی بیداری کے لئے ریلیاں نکالی جائیں گی۔ پاکستان میں خواتین کے استحصال اور معاشرتی ناہمواریوں سے انکار ممکن ہے نا ہی حکومتی اور معاشرتی سطح پر صنفی امتیاز کے خاتمے کے لئے کوششوں کے فقدان کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ۔ہماراسماجی ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ خواتین پر روا رکھے جانے والے ظلم کا ریکارڈ رکھنا ممکن نہیں۔ پاکستان کمشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2016ء تک 7ہزار 7سو 34خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔508کو اغوا اور 15سو 35کو زندہ جلا دیا گیا گھریلو تشددکے 1834واقعات رپورٹ ہوئے۔ ملک میں خواتین کو انصاف کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء میں گھریلو تشدد کے 3500واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے ان میں عدالتوں سے سزا تو دور کی بات پولیس 50فیصد مقدمات میں بھی ملزمان کو گرفتار نہ کر سکی۔ یہ تو عورتوں کے استحصال کے حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمارہیں باقی دنیا بالخصوص نام نہاد ترقی یافتہ مغربی ممالک جن کی تقلید میں ہماری این جی او زدہ خواتین پاگل ہوئی پھرتی ہیں وہاں کے حالات پاکستان سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر چھ میں سے ایک عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو برطانیہ خواتین سے جنسی زیادتی کے لحاظ سے پانچویںاور جرمنی چھٹے نمبر پر ہیں۔ برطانیہ کے ہی ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر معاشروں میں خواتین کے ساتھ ظلم کی داستانیں ہولناک ہیں مگر عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کے واقعات ترقی یافتہ مغربی ممالک میں 3گنا زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں گویا: یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن انسان کی توقیر یہاں ہے نا وہاں تھی کسی بھی مسئلہ کے اسباب و علل جانے بغیر اس کے حل کی سبیل ممکن نہیں ہو سکتی اسی لئے دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن پر سیمینارز منعقد ہوتے ہیں۔ ماہرین سماجیات پاکستان میں خواتین کے استحصال کی وجہ سماجی روایات، قبائلی نظام، تعلیم اور شعور کے فقدان کو قرار دیتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل معاشرے کی نام نہاد انا پسندی کا شاخسانہ ہے تو ونی اور کاروکاری کا سبب قبائلی روایات کا حامل سماجی ڈھانچہ ۔ معاشرتی عدم مساوات اور سماجی ناہمواری صدیوں سے ہمارے ادیبوں شاعروں اور دانشور کا موضوع سخن رہی ہے۔ علامہ اقبال اگر’ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی صورت میں عورت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں تو جوانی کے بدکار بن کر بھٹکنے کی عورت کی بپتا ساحر لدھیانوی نے تفصیل سے منظوم کی ہے ساحر کے نزدیک: سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے چکلوں میں آ کر رکتی ہے فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے پاکستان میں یوم خواتین سے ہفتہ بھر پہلے ہی خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کا ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ برس ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کی وجہ سے بات معاشرتی تقسیم تک پہنچی تھی تو اس بار ایک ہفتہ پہلے ہی فریقین نے اپنے اپنے محاذ سنبھال لئے۔ ٹی وی شوز نے ریٹنگ بڑھانے کے لئے فریقین کو بہکانے اور بھڑکانے کے لئے حتی المقدور جتن کئے۔ایک ٹی وی شو میںخواتین کے حقوق کی علمبردار ماروی سرمد سے ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کی بدکلامی کے ڈرامے کا کلائمکس اسلام آباد کی سڑک پر دن دیہاڑے ایک خاتون کا اپنے تن سے لباس اتار پھینکنے پر ہوا۔ ویڈیو وائرل ہوئی، ہزاروں افراد نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا، اکثر نے اس حرکت پر خاتون کو ننگی گالیوں سے نوازا حالانکہ راقم کے نزدیک موصوفہ نفرت اور گالیوں کے بجائے ہمدردی اور علاج کی زیادہ مستحق ہے۔ ورنہ ایسا پاکستان میں تو کیا یورپ اور امریکہ کے کسی بھی آزاد سے آزاد خیال ملک میں بھی ممکن نہیں کہ کوئی خاتون بغیر کسی کے اشتعال دلائے کپڑوں سے باہر ہو جائے۔ ویڈیو سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خاتون نہ صرف کسی کی بہن بیٹی بلکہ بیوی اور ماں بھی ہے۔ اس موقع پر حکومتی اداروں کا رویہ شرم ناک رہا کہ ایک باحجاب پولیس کی لیڈی کانسٹیبل خاتون کو ڈھانپنے کی کوشش کرکے تماشا نہ لگاتے۔ حالانکہ اس عورت کے عمل کو احتجاج نہیں ذہنی عارضہ کہا جانا چاہیے اور مریضہ کو پولیس سٹیشن کے بجائے دماغی امراض کے ہسپتال لے جانا چاہیے تھا۔ایک عورت ہی کیا ہمارے پورے سماج کی ذہنی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ حقوق نسواں کی کسی تنظیم کی طرف سے بھی اس مریضانہ حرکت کو مسترد نہیں کیا گیا۔ خواتین کے حقوق کے نام پر سیاست اور تجارت کے مکروہ ایجنڈے کا نقصان یہ ہوا کہ خواتین کے عالمی دن پر ہمارے دانشوروں نے سماجی اور قبائلی قباحتوں کی نشان دہی اور حل کے لیے تجاویز دینے کے بجائے ماروی سرمد ڈرامے پر مباحث میںاپنی توانیاں ضائع کیں۔ عورتوں کے حقوق اور استحصال کے خالصتاً سماجی مسئلے کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ یہاں تک کہ مفتی کفایت اللہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر حقوق نسواں کے نام پر دین بے زاری کے فروغ کا سلسلہ نہ رکا تو وہ عورت مارچ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ سماجی حلقوں بالخصوص خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کا استحصال کسی لحاظ سے مذہبی نہیں سماجی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اسلام عورت کے تعلیم، روزگار یہاں تک کہ نکاح اور طلاق کے معاملے میں عورت کا حق تسلیم کرتا ہے اور کوئی بھی عالم دین اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق سے منکر نہیں۔ اگر ہماری نام نہاد سول سوسائٹی اسی طرح خواتین کے حقوق کے نام پر سستی شہرت کے لیے ڈرامے کرتی رہی تو اس صورت حال میں تو ساحر لدھیانوی کا کہا ہی درست مانا پڑے گا۔ یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا