وسیب پیار ، محبت ، امن اور شانتی کے رچائو میں رَچی ہوئی ایسی مٹی ہے جہاں محبت و اُلفت اور امن و دوستی کے پیڑ اُگتے ہیں اور ان پیڑوں کی شاخوں پر یادوں کے ایسے حسین پھول کھلتے ہیں جن کی دلکش خوشبو کبھی بابا فریدؒ کے دوہے ، کبھی سلطان باہوؒ کے بیت ، کبھی خواجہ فرید ؒ کی کافی اور کبھی شاکر شجاع آبادی کے دوہڑے کی شکل میں ہماری سانسوں کو مہکا دیتی ہے ، اس مہک اور خوشبو سے وسیب میں بسنے والے سرائیکی سندھی ، پنجابی ، بلوچ پشتون اور دوسری زبانیں بولنے والے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ، بلاشبہ دھرتی ماں ہے اور اس کی گود میں پلنے والے سب اس کے بیٹے ، لہٰذا تمام بیٹوں کیلئے ماں کی محبت اور سخاوت برابر ہے ۔ ہاں! البتہ سرائیکی ماں دھرتی کا کوئی کم عقل بیٹا اگر سرائیکی ماں دھرتی کوماں نہیں سمجھ رہا اور ماں بولی سے پیار نہیں کر رہا تو کوئی بات نہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوتیلی مائوں کا سلوک اسے ایک نہ ایک دن سرائیکی ماں دھرتی کا فرمانبردار بیٹا بنا دے گا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب نے ہمیں ایسے ایسے سپوت دئیے ہیں کہ جن پر جتنا ناز کریں کم ہے ، حریت کے حوالے سے احمد خان کھرل ، مولانا عبید اللہ سندھی ، اسلم خان ملغانی ، خواجہ فریدؒ اور نواب مظفر خان شہید ، ایسے سینکڑوں نام ہیں جن پر تاریخ انسانی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔عظیم اسلامی سلطنت ملتان کے فرمانبردار نواب مظفر خان شہید کا نام آئے تو سر احترام سے جھک جاتا ہے ، نواب مظفر خان شہید نے 2جون 1818ء کو قلعہ ملتان کا پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کی فوجوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرکے سرائیکی قوم کا سر ہمیشہ کیلئے فخر سے بلند کر دیا ہے ، نواب مظفر خان شہید جن کا تعلق شجاع آباد سے تھا نے ، ایک ایک کرکے اپنے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ماں دھرتی پر قربان کردی مگر حملہ آوروں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے۔ آج شجاع آباد کا ایک اور سپوت شاکر شجاع آبادی میدان ادب میں آ گیا ہے۔ بات ہو رہی تھی شاکر شجاع آبادی کی تو عرض یہ ہے کہ شاکر شجاع آبادی کو جہاں بہت سے دوسرے اعزازات حاصل ہیں وہاں ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ سرائیکی شاعری میں متفرق اشعار شاکرؔ صاحب نے لکھے اور اگر ہم ادبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اُردو شاعری میں علامہ اقبال نے بھی متفرق اشعار لکھے تھے۔حقیقی بات یہ ہے کہ ادب کے حوالے سے شاکر شجاع آبادی ایک شخص کا نہیں ایک عہد کا نام ہے ، اپنی شاعری کے ذریعے شاکر نے ایک زمانے کو متاثر کیا ہے ، اس کے متاثرین کی تعداد لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک پہنچ چکی ہے ، اب پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں شاکرؔ کے چاہنے والے پرستار موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہے ، وہ انسان اور انسانیت سے پیار کرتا ہے ، وہ نہ اشتراکی ہے نہ سامراجی ، وہ دنیا میں پائی جانیوالی نابرابری ، جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کرتا ہے وہ اعلیٰ سوچ کا ایک نامور شاعر ہے ، نہایت سادہ اور عام لفظوں میں بات کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ دلوں میں اُتر جاتی ہے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں شاکر کی شاعری کے حوالے اس لئے کوڈ نہیں کر رہا کہ اس کی شاعری ہوا اور خوشبو کی طرح ایک ایسے لطیف جذبے کا نام ہے جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر گرفت نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ شاکر شجاع آبادی ہماری نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ، وہ جب پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے میںخاموشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔ سامعین ان کے کلام کو گوشِ جاں سے سنتے اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں ، وہ سرائیکی زبان کا واحد خوش قسمت شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا اور سنا گیا ہے ، اس کی باتیں فکر اور دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ، وہ جو بات کرتا ہے دل والی کرتا ہے اور ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کی مانند اس کے شعروں کی باتیں پُر تاثیر اور پُر مغز ہوتی ہیں ، میں سمجھتا ہوں دانائی کی ایسی باتیں کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ؎ بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے ’’بات‘‘ ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے ’’بات‘‘ ہوتی ہے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ شاکر شجاع آبادی کو سینکڑوں کی تعداد میں ایوارڈز اور تعریفی سرٹیفکیٹ ملے مگر اکادمی ادبیات ایسے غیر منصفوں کو مصنف بناتی آ رہی ہے جو شاکر شجاع آبادی اور احمد خان طارق جیسے شعراء کو بھی اپنے حق سے محروم کرتے آ رہے ہیں ، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ نوبل پرائز والوں کا زاویہ نگاہ محدود ہے ورنہ یہ ہو سکتا ہے کہ شاکر شجاع آبادی نوبل انعام سے محروم رہے ؟ سرائیکی شاعری عالمی ادب میں بہترین اضافہ ہے مگر ہرجگہ مناپلی ہے۔ سرائیکی کا تو مسئلہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ سرائیکی کی نہ تو اپنی اسمبلی ، نہ صوبہ اور نہ اسمبلی میں کوئی بات کرنے والا ۔مگر کیاسرائیکی شاعری کبھی مر سکتی ہے ، کیا شاکر شجاع آبادی اور دوسرے سرائیکی شعراء کی سوچ کوئی ختم کر سکتا ہے ؟ یہ ممکن ہی نہیں ۔ لیکن ایک ضروری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حکومت شاکر شجاع آبادی کے علاج پر توجہ دے اور اس کے ساتھ ساتھ وسیب میں اس طرح کا ادارہ قائم کیا جائے جو سرکاری سطح پر ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کام کرے اور مشکل وقت میں اہل قلم اور فن کی دنیا سے وابستہ افراد کا ساتھ دے۔