برطانیہ کے شہر لندن کے کیبوٹ (Cabot) اسکوائر پر عالمی معیشت، مالیات اور سیاست کے حوالے سے معتبر عالمی جریدے اکانومسٹ کا انٹیلیجنس یونٹ واقع ہے جو ایک بہت بڑے تھنک ٹینک کے طور پر 1946ء سے وہاں کام کر رہا ہے۔ یہ انتہائی جانفشانی سے تحقیق کرتا ہے اور پھر ہر ملک کے بارے میں مختلف وقفوں سے عموماً تین قسم کی رپورٹیں مسلسل شائع کرتا رہتا ہے۔ پہلی رپورٹ اس ملک کی ماہانہ معاشی کارکردگی کے بارے میں ہوتی ہے، دوسری رپورٹ اس ملک سے متعلق آئندہ پانچ سال کی معاشی پیشگوئی پر مشتمل ہوتی ہے اور تیسری رپورٹ اس ملک میں صنعت اور خدمات (Services) کے شعبوں میں ممکنہ خدشات (Risks) کے بارے میں ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار اور ملکوں کو قرض دینے والے بینکار یا پیرس کلب جیسے گروہ ان رپورٹوں کو اپنی منصوبہ بندی میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر ان رپورٹوں کے مطابق کسی ملک میں سرمایہ ڈوبنے کا اندیشہ ہو تو وہ اس ملک سے دُور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اس ادارے کا سربراہ روبن بیو (Robin Bew) ہے جو مدتوں اکنامسٹ رسالے کا ایڈیٹوریل ڈائریکٹر اور چیف اکانومسٹ بھی رہا ہے۔ اس ادارے نے 25 اپریل 2023ء کو پاکستان کے بارے میں تینتالیس (43) صفحات پر مشتمل اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو فوری شدید خدشات اور آئندہ پانچ سالوں میں اس مملکت ِ خداداد پاکستان کے معاشی مستقبل کی ایک المناک پیش گوئی پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ اس کے آغاز میں ہی درج ذیل سات نکات میں بیان کر دیا گیا ہے۔ 1۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں اُبھرنے والی ایک معیشت ہے جو اندرونی اور بیرونی سطح پر معاشی عدم استحکام کے دیرینہ مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے سیاسی عدم استحکام، اندرونِ ملک سکیورٹی خدشات اور معاشی پالیسیوں میں خرابیوں کی وجہ سے یہ ہرگز سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ 2۔ انٹیلیجنس یونٹ یہ اُمید رکھتا ہے کہ شہباز حکومت اگست 2023ء تک اپنی مدت پوری کرے گی اور یہ پیش گوئی بھی کرتا ہے کہ آئندہ الیکشن عمران خان کی تحریکِ انصاف جیتے گی، مگر اس وقت پاکستان میں سکیورٹی کے حالات اس قدر کمزور ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں تشدد کے واقعات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ 3۔ سٹیٹ بینک اپنی مالیاتی پالیسی کو مزید سخت کر دے گا اور 2023ء کے اکتوبر تک وہ شرح سود 23 فیصد تک لے جائے گا تاکہ اس طرح وہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل بھی کرے اور ملک میں افراطِ زر سے مقابلہ بھی کر سکے۔ معاشی ترقی کی رفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2024ء کے جون تک شرح سود میں کسی قسم کی کمی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ 4۔ موجودہ برے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے 2022-23ء میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کا جو اندازہ 1.5 فیصد لگایا تھا وہ اب گھٹ کر صرف 0.2 فیصد رہ جائے گی۔ اس بدحالی کی وجوہات بے شمار ہیں جن میں سیلاب، غربت کے اثرات سے عوام کے اخراجات میں کمی، عالمی معاشی مسائل اور خوفناک حد تک شرح سود کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری بہت کم ہو جائے گی۔ البتہ 2023ء سے 2027ء کے عرصے میں ہماری پیش گوئی ہے کہ پاکستان کی شرح نمو 2.8 فیصد تک ہو جائے گی۔ 5۔ ہمیں اندازہ ہے کہ پاکستان جولائی 2023ء سے شروع ہونے والے معاشی سال میں دیوالیہ (Default) ہو جائے گا، کیونکہ اس کے پاس قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لئے زرِمبادلہ موجود نہیں ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اکتوبر میں ختم ہو جائے گا تو ایسے پاکستان قسطوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض حاصل نہیں کر پائے گا۔ 6۔ کمزور معاشی عوامل نے کئی سال سے اس ملک کی معیشت کو دیگر ایشیائی ممالک کی منڈیوں، یہاں تک بنگلہ دیش سے بھی بری حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ موجودہ شہباز حکومت نے جس قسم کی اصلاحات کی ہیں وہ آئندہ چار سالوں میں پاکستان کی معاشی ترقی کا گلا گھونٹ کر رکھ دیں گی۔ 7۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان روس اور چین سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کے لئے مغربی دنیا سے اپنے تعلقات کی قربانی دے گا۔ بھارت سے اس کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اور پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد کرتا رہے گا لیکن اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ ہے آئندہ پانچ سالہ عرصے میں پاکستان کی معاشی اور سیاسی حالات کی پیش گوئیوں کا خلاصہ جو اس رپورٹ میں پیش کی گئی ہیں۔ اکانومسٹ مسٹ نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے 10 مارچ 2022ء کو پاکستان کے بارے میں چند پیش گوئیاں کی تھیں مگر ہماری توقعات کے برعکس شہباز شریف حکومت کے برسراقتدار آنے سے معاشی حالات میں اس قدر ہلچل پیدا ہوئی کہ اب ہم اپنی بیشتر پیش گوئیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ ہم آئندہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں شدید کمی دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ پاکستان میں افراطِ زر اب 30 فیصد سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ پاکستان کی کرنسی کی قیمت مسلسل گرتی رہے گی جو اس سال بھی ڈالر کے مقابلے میں 278.3 کی اوسط کے اردگرد گھومتی رہے گی۔ ہم اپنی گذشتہ پیش گوئی پر نظرثانی کرتے ہوئے پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ میں خسارے کی شرح کو 3.2 فیصد سے 2.9 فیصد تک کم کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کوئی معاشی استحکام نہیں ہے بلکہ پاکستان کے پاس بیرون ملک سے ضروری اشیاء منگوانے کے لئے بھی زرِمبادلہ نہیں ہے۔ رپورٹ کا اہم ترین حصہ مستقبل کے ممکنہ سیاسی حالات سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اور ملکی معیشت پر اس کے اثرات سے متعلق ہے۔ رپورٹ نے ان اثرات کو 25 پوائنٹ کے ایک پیمانے (Scale) پر مرتب کیا ہے۔ اس میں سب سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا گیا تو پھر رپورٹ کے مطابق معاشی حالات انتہائی خراب ہو جائیں گے اور اسے 15 پوائنٹ تک کی تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر آئی ایم ایف اپنا پروگرام پاکستان سے مستقل طور پر ختم کر دیتا ہے تو پھر بھی یہ معیشت کے لئے اتنا ہی مہلک ہو گا جتنا مارشل لاء یعنی 15 پوائنٹ۔ اگر آئی ایم ایف اپنے موجودہ پروگرام کو طویل مدت تک لے جاتا ہے، مگر پاکستان کو مزید پروگرام نہیں ملتا تو پھر بربادی 12 پوائنٹ تک ہو گی۔ آنے والے چند سال اگر مزید سیلاب یا موسمیاتی تباہ کاری کا شکار ہوئے تو پھر بھی خطرہ 12 پوائنٹ تک ہو گا۔ آخری اور سب سے اہم پیش گوئی ایک ایسے خطرے کو مدِنظر رکھ کر کی گئی جو ان تمام خدشات کو آپس میں مدغم کر دے گا۔ رپورٹ کے مطابق اگر عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا تو اس کے نتیجے میں ایک ایسا خونریز احتجاج شروع ہو گا جس سے تباہی 12 پوائنٹ تک ہو سکتی ہے۔ اب ان چاروں خطرات کو ملا کر دیکھیں۔ عمران کو نااہل قرار دیا گیا، اس کے نتیجے میں خونریز احتجاج شروع ہوا، حالات بے قابو ہونے پر مارشل لاء لگا دیا گیا اور پھر ملکی معاشی زوال کو دیکھ کر آئی ایم ایف نے خدا حافظ کہہ دیا تو پھر رپورٹ کے پیمانے کے مطابق ایک ایسی بربادی و تباہی آئے گی جس کو کسی بھی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکے گا۔