’ طاری ‘ کے باس (Boss ) نے اس کی بہت تعریف کی اور کہا کہ جونہی کوئی نوکری نکلی تو میں اس کی باقاعدہ تقرری کر دونگا۔ طاری چار پانچ دن گم رہا اور پھر ہفتے والے دن اس کا فون آیا ، کہنے لگا کل اتوار ہے اور لنچ میں تیار کرونگا۔سچی بات ہے ،میں بھی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ خیر دوسرے دن وہ گلے میں ’’ گٹار ‘‘ کا بیگ ( Bag ) لٹکائے ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے پہنچ گیا۔کہنے لگا سر جی ، میرا ’’ گٹار ‘‘ لانا آپ کو برا تو نہیں لگا۔ میں نے کہا ، نہیں طاری مجھے تو اچھا لگاہے۔میں تو میوزک پسند کرتا ہوں۔ کہنے لگا ، ’’سر جی خدا گواہ ہے، مجھے لگا تھا کہ آپ جیسا نفیس انسان میوزک لور ضرور ہو گا ‘‘۔ سر جی ، تو آج لنچ کے بعد میں آپ کو ’ گٹار ‘ سنائونگا ، پھر بتانا ، ’ استاد طاری ‘ کیا چیز ہے۔ خیر لنچ کے بعد طاری نے گٹار بجانا شروع کیا، میں ایک نئی دنیا میں پہنچ گیا۔ وہ واقعی استاد ہی تھا۔ جانے سے پہلے کہنے لگا ’’ سر جی ، آپ کو تو معلوم ہو گا کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں سرکاری محکموں میں ڈیلی تنخواہ کیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ، طاری کیا ہے‘‘۔ کہنے لگا ’’ سرجی ، ساڑھے آٹھ سو روپے اور کوئی چھٹی بھی نہیں! جس دن ڈیوٹی پر نہ گئے، آپ کی ڈیلی کٹ گئی ۔ میں نے اُسے حوصلہ دیا کہ ’’ طاری جب تمہاری باقاعدہ نوکری لگ جائیگی تو پھر تنخواہ بھی بہتر ہو جائے گی‘‘۔ طاری بولا ’’ سر جی پھر کتنی ہو جائے گی؟ ‘‘ میں نے کہا ’’ تیس بتیس ہزار روپے مہینہ تو ہو جائیگی ‘‘ ۔ طاری بے بسی سے کہنے لگا ’’ سر جی یہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہ کون مقرر کرتا ہے ! میں نے کہا ’’ کیوں طاری ، تُو نے کیا کرناہے‘‘ کہنے لگا ’’ سر جی ،میں سوچتا ہوں کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ لاہور شہر میںجو آدمی صبح سے شام تک بغیر چھٹی کام کرے اور اسے مہینے کے بعداگر تیس , بتیس ہزار روپے دے دئیے جائیں تو وہ مکان کا کرایہ کیسے دے گا ، کیا سوئی گیس، بجلی کا بل دے گا اور کیا بچوں کو تعلیم دلوائے گا۔ یہ لوگ بہت ظالم ہیں۔ سر جی مجھے سرکاری نوکری پسند نہیں آئی۔ ہاں ، اب میں ڈرائیوری سیکھوں گا۔ سنا ہے ڈرائیوروں کی تنخواہ قدرے بہتر ہوتی ہے۔ یہ سن کر میں ذرا گھبرا سا گیا،کیونکہ مجھے استاد طاری کے مزیدار کھانے اور اس کے بجائے گئے گٹار جاتے نظر آنے لگیلیکن نہ جانے اس نے کیسے بھانپ لیا۔ یکدم جھکے سر کو اٹھایا اور کہنے لگا۔ ’’ سر جی ، آپ سے تو مجھے پیار ہو گیا ہے۔آپ نے بڑے خلوص سے فوراً مجھے سرکار ی نو کری دلوا دی ، سب سے بڑی بات کہ آپ میوزک لور ہیں۔ میں آپ کے ہاں باقاعدگی سے آتا رہونگا۔ خیر ، استاد طاری نے نوکری چھوڑ دی لیکن ہفتہ میں ایک دو دفعہ فون کرکے آجاتا ۔ خوب محفل جمتی۔ اچھے سے اچھے کھانے بنائے جاتے۔ خوب گٹار سنا اور بجایاجاتااور پھر اچانک استاد ’طاری ‘ گُم ہو گیا۔ کچھ سمجھ نہ لگی کہ استاد کہاں کھو گیا۔ چار پانچ ماہ بعد ایک اتوار استاد طاری نمودار ہو گیا۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا، حیرانگی کی وجہ بھی تھی۔ طاری نے بوسکی کی خوبصورت قمیض اور سفید رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی جو اُس کے سانولے رنگ پر بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ در اصل حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ گاڑی خود چلا کر آیا تھا اور گاڑی بھی نئے ماڈل کی بلیک ’ہنڈا سٹی‘ ۔ خیر ، آج نہ وہ گٹار لایا تھا اور نہ ہی اُس نے کھانا بنانے کی بات کی۔ اس سب ماحول کو دیکھ کر میں پوچھے بنا نہ رہ سکا کہ، طاری آج کل کیا کر رہے ہو! کہنے لگا ’’ سر جی ‘‘ شاید آج کے بعد آپ کی میری ملاقات نہ ہو کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے جیسا بُرا آدمی آپ جیسے اچھے انسان سے کوئی رابطہ رکھے۔ میں نے کہا ’’ طاری ، ایسی کونسی بات ہو گئی ہے کہ آپ بُرے ہوگئے ہو ‘‘۔ طاری نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگا کہ سر جی ڈرائیونگ سیکھنے کے دوران کچھ ایسے دوستوں سے ملاقات ہو گئی جو گاڑیاں چور ی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے پیار سے سمجھایا کہ نوکری میں کیا رکھا ہے، سارا دن دھکے کھاتے پھروگے اور پوری پھر بھی نہیں پڑے گی۔ہمارے ساتھ شامل ہو جاو اور موج کی زندگی گزارو ، اور پھر میں اُن کے ساتھ چل پڑا۔ طاری کی بات سن کرمیں صدمہ میں چلا گیا اور بے ساختہ کہا ’’ طاری ایک دن پکڑے جائو گے اور جیل میں سڑ تے ر ہو گے، تمہاری فیملی تباہ ہو جائیگی‘‘۔ طاری کہنے لگا ’’ سر جی ،میں نے ان کے اندر جا کے سب کچھ دیکھ لیا ہے۔ ہر چیز ایک نظام میں چل رہی ہے۔ چوری کی واردات سے لے کر پکڑے جانے تک ۔ سر جی ، یہ ایک فول پروف نظام ہے۔ چوری ،میں اکیلے نہیں کرتا۔ کم از کم تین چار لوگوں کا ایک گر وپ ہوتا ہے۔ اینٹی کار لفٹنگ والوں کے ساتھ آپ جیسے شریف لوگ تو تعلق ہی نہیں رکھتے۔ ان کی زندگیاں بھی ہمارے پیار پر چلتی ہیں۔ عدالتیں ہمارے ’تگڑے ‘ وکیلوں کی وجہ سے ہم پر مہربان ہوتی ہیں اور جس کی گاڑی چوری ہو جاتی ہے وہ تو اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر زندگی کے نئے ورق الٹنے پلٹنے میں مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس ملک کے نظام کو جانتاہے ۔ وہ کبھی کیس کے پیچھے نہیں بھاگتاکیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس نظام میں اس کے لئے کچھ بھی نہیں ۔ سر جی، نئی گاڑی کے ہمیں چار پانچ لاکھ روپے تو بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں۔واردات کی جگہ کے قریب ہی ہمارے ڈیرے ہوتے ہیں جہاں ہم گاڑی اٹھانے کے بعد فوری پارک کر دیتے ہیں۔ ساری واردات دس پندرہ منٹ میں مکمل ہو جاتی ہے۔ وہاں سے آگے لے جانے اوربیچنے والے اور لوگ ہوتے ہیں۔ مہینے میں صرف دوگاڑیاں ہی اٹھا لیں تو گھر خوب چلتا ہے۔ مجھے تو ’ سر جی ‘ ڈر لگتا ہے کہ اگر اس نظام کا سب غریبوں کو معلوم ہو جائے تو بے شمار ہمارے گروہ میں شامل ہو جائیں ۔ شکر ہے، سب کو اس کی خبر نہیں۔ ’ سر جی‘ آپ کے ملک کا نظام چوروںکو خوشحال کرتا ہے اور حلال کی روزی کمانے والے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈو بے رہتے ہیں۔ اس ملک میں غریبوں کا بہت استحصال ہو رہا ہے اور اس نظام سے جان چھوٹتی بھی تو نظر نہیں آتی ۔ ’ سر جی ‘ آپ کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، آپ کو مس کرتا رہوں گا لیکن ملوں گا نہیں ‘‘ اور طاری کی گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔