رجب طیب اردگان نے ترکی کے 28 مئی کو ہونے والے رن آف الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ہفتہ 3 جون کو ترکی کے صدر کے طور پر تیسری مدت کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ ملک کی سپریم الیکشن کونسل کی طرف سے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق اردوان نے صدارتی انتخاب میں 52.18 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے جب کہ اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیک دار اوغلو نے 47.82 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق صدارتی محل میں منعقدہ افتتاحی تقریب میں 21 سربراہان مملکت، 13 وزرائے اعظم اور پارلیمانی و وزارتی سطح کے حکام سمیت 81 ممالک کے اعلیٰ سطحی حکام نے شرکت کی۔ نیٹو، ترک ریاستوں کی تنظیم (OTS) اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سمیت بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ جہاں تک ترکی کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ترکی یقینی طور پر زیادہ بااثر ہوا ہے، نہ صرف پورے مشرق وسطیٰ میں بلکہ اَفریقہ اور یورپ میں بھی۔ اس نے روس اور یوکرائن کے درمیان ثالثی کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جو ایک خاص مثال ہے اور ایک علاقائی طاقت کے طور پر ترکی کی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔ عرب دنیا میں Spring Arab کے نام سے اٹھنے والی تحریکوں کے دوران مصر اور دیگر جگہوں پر اخوان المسلمون کی حمایت کے نتیجے میں ترکی کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات تلخ ہوگئے تھے۔ دریں اثنا، ریاض کے حریف تہران کے ساتھ انقرہ کے قریبی تعلقات اور استنبول میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے اِن اِختلافات کو مزید بڑھاوا دیا۔ تاہم صدر اردوان نے عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا ہے۔ صدر اردوان کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مسلم دنیا میں ترکی کے وقار کی بحالی اور ترکی کے اِسلامی تشخص کی دوبارہ ترویج کے لیے پرعزم ہیں۔ حالیہ دنوں میں چین کی ثالثی کے ذریعے سعودی عرب اور اِیران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی نے علاقائی سیاست کو ایک نیا رخ دیدیا ہے جو پاکستان سمیت مسلم دنیا کے لیے اِیک خوش آئند اَمر ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ختم ہونے والی خلافتِ عثمانیہ کے بعد جب مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں جدید ترکی قائم ہوا تو شروع دِن سے ہی ترکیہ کے اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم محور رہا ہے۔ دوسری طرف اَمریکہ نے بھی ترکیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے قیام کو ترجیح دی ۔جس کی واضح مثال "سرد جنگ" کے دور میں ترکیہ کو فراہم کی جانیوالی اِمداد اور1949میں اَمریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے فوجی اِتحاد "نیٹو" میں ترکیہ کی شمولیت ہے۔ اگر ماضی قریب میں ترکیہ کے اَمریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اردوان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نسبتاً دوستانہ تھے لیکن موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کا فقدان ہے۔ ترکی کی جانب سے روس سے S-400 فضائی دفاعی نظام خریدنے کے بعد واشنگٹن نے انقرہ کو 2019 میں اپنے F-35 جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر پروگرام سے ہٹا دیا تھا کیونکہ اَمریکہ کے بقول 400 فضائی دفاعی نظام شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم(NATO) سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اگرچہ ترکی کی زیادہ تر جماعتیں یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات اور انضمام کو ترجیح دیتی ہیں، لیکن یورپ ترکی کو اپنا حصہ نہیں مانتا اور خاص طور پر فرانس اس بارے میں آواز اٹھاتا رہا ہے۔ اَلبتہ ابھی بھی، یوکرائن کے لیے ترکی کی حمایت اورسویڈن کے حوالے سے غیر یقینی رہتے ہوئے، فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی واپسی جیسے اِیشوز نے واشنگٹن کو نیٹو اتحاد کے مفاد میں انقرہ کو F-16 جیٹ طیارے اور دیگر فوجی سازوسامان فروخت کرنے کی ترغیب دی ہے۔جہاں تک ترکیہ اور روس کے باہمی تعلقات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اردوان اور روسی صدر پوٹن کے درمیان قریبی تعلقات ہیں کیونکہ ترکی روس کی توانائی کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ تاہم، دونوں نے لیبیا، شام اور آرمینیا،آذربائیجان تنازعہ میں مخالف فریقوں کی حمایت کی ہے۔ ترکی نے یوکرائن پر روس کے حملے کی بھی مذمت کی اور اِسے ڈرون بھی فراہم کیے ہیں۔ تاہم، ترکیہ نے اب بھی روس پر مغربی پابندیوں کی مخالفت کی، یہ ایک متوازن عمل ہے جو بین الاقوامی سیاست کے میدان میں عالمی کردار کے طور پر ترکی کے مقام کو پیش کرتا ہے۔ اسی طرح ترکی نے 2015 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ہوکر برسوں سے چین کے ساتھ اتحاد کیا ہوا ہے۔ تاہم، چین کے صوبے سنکیانگ کے ترک النسل اوغور مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم دونوں اتحادیوں کے درمیان ایک زیر بحث مسئلہ رہا ہے۔ اردوان نے 2009 میں چین پر "نسل کشی" کا الزام لگایا تھا، لیکن اس مسئلے کو عوامی سطح پر اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔پاکستان اور ترکیہ کے مابین باہمی روابط اور تعلقات کی تاریخ ایک صدی پر محیط ہے جو برِصغیر کے مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کی تحریک سے شروع ہوتی ہے اور ترکی کی جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی حمایت ترک عوام کے ذہنوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین ریاستی سطح کے گہرے تعلقات ہیں جو سیاسی شخصیات سے مبرا ہیں۔ دونوں برادر ملکوں نے 2022 میں سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی ہے۔ قدرتی آفات جیسے مشکل ترین چیلنجز سے نمٹنے میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کا تعاون عوام کے درمیان قریبی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو 2009 میں اعلیٰ سطحی تعاون کونسل کے قیام کے ساتھ ادارہ جاتی شکل دی گئی، جسے بعد میں اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (HLSCC) کی سطح پر اپ گریڈ کیا گیا۔ HLSCC کا چھٹا اجلاس صدررجب طیب ایردوان کے 13-14 فروری 2020 کو پاکستان کے دورے کے موقع پر اِسلام آباد میں منعقدا ہوا جس میں 13 دستاویزات پر دستخط کیے گئے جن میں HLSCC کا مشترکہ بیان اور "اسٹریٹجک اکنامک فریم ورک" (SEF) شامل ہے۔ صدر اردوان اپنے اِقتدار کی تیسری دہائی میں داخل ہوچکے ہیں اور یقیناً ترکیہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور سمت کے تعین میں وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔ صدر ارداون کی قیادت میں ترکیہ کی آئندہ خارجہ پالیسی کے بارے میں یہی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ صدر اردوان کے تحت، ترکی کی خارجہ پالیسی مغرب سے اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوگی جبکہ روس اور چین جیسے ممالک کے لیے ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی مزید راہیں کھلیں گی۔ ترکی اپنے پڑوسیوں اور غیر مغربی طاقتوں، روس، چین کے ساتھ ٹھوس تعلقات کو جاری رکھے گا۔ تاہم،اس سے اقوام کی مغربی برادری کے شراکت دار کے طور پر ترکی کی جیو اسٹریٹجک صف بندی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔