جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں قید معروف کشمیری حریت رہنما محمد اشرف خان صحرائی گزشتہ ہفتے کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے جس کے بعد اْنھیں جموں کے میڈیکل کالج ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ محمد اشرف صحرائی 5 اگست 2019ء کے بعد سے جیل میں تھے۔ قابض بھارتی فورسز نے 80 سالہ بزرگ حریت رہنما کو 2019ء میں پبلک سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے جموں کے کوٹ بلوال جیل میں قید کر دیا گیا تھا۔ان کی عمر77 برس تھی تو انکے بیٹے جنید صحرائی نے معاشیات کی تعلیم ادھوری چھوڑ کرمجاہدین کے ایک گروپ میں شمولیت اختیار کر لی ۔ جنید ایک جھڑپ میں شہید ہو گئے تھے۔ اس کے فوراً بعد محمد اشرف خان صحرائی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کیا گیا تھا۔ وفات کے بعد اشرف صحرائی کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انہیں چیئرمین تحریک حریت کی سری نگر میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس ورکنگ کے وائس چیئرمین‘ غلام احمد گلزار نے ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت اشرف صحرائی کی موت کی ذمہ دار ہے۔کشمیر میں اس وقت 7 لاکھ بھارتی قابض فوج موجود ہے اور پورا علاقہ دنیا کی ایک بڑی جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ خاص طور پر یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اشرف صحرائی کو جیل میں میڈیکل سہولیات تک رسائی نہ دے کر اور مناسب صحت افزا ماحول فراہم نہ کرکے، بے دردی سے قتل گیا ہے۔ وہ کافی دنوں سے سخت بیمار تھے لیکن انہیں کل ہی اسپتال لایاگیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ ہمیں بھارتی جیل میں ان کی وفات پر بہت دکھ اور رنج ہے۔ حکومت پاکستان اور عوام نے کشمیری رہنما اشرف صحرائی کی بھارتی حراست میں شہادت کی شدید مذمت اور شدید افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی کا رنگ دینا یو این او کے چارٹر اور قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ کورونا کی ابتر صورتحال کے باعث بھارتی جیلوں میں کشمیریوں کی صحت سے متعلق بہت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ بھارتی جیلوں میں کورونا کیخلاف احتیاطی تدابیر کا کوئی بندوبست نہیں۔ بھارتی حکومت کو قید کشمیری قیادت اور تمام بے گناہ کشمیریوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہئے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت پر زور دے کہ وہ کشمیری رہنماؤں کے خلاف من گھڑت الزامات ختم اور انہیں ایک آزاد اور منصفانہ مقدمے کی سماعت کے حق سمیت مکمل قانونی تحفظ فراہم کرے۔ صدر مسلم لیگ (ن) نے بیان میں کہا اشرف صحرائی کی آزادی تحریک کیلئے خدمات تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ کشمیری قوم وفادار اور بہادر بیٹے سے محروم ہو گئی۔ انکا انتقال ناقابل برداشت نقصان ہے۔ صحرائی تقریباً نصف صدی سے جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے اور جماعت کے نہایت مقبول رہنما سید علی گیلانی کے دست راست تھے۔ اْن کی وفات سے کشمیری قیدیوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کشمیری حریت لیڈر محمد اشرف صحرائی کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کی بلندی درجات کے لیے دعا کی ہے۔ سراج الحق نے اشراف صحرائی کی شہادت کو بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غم کے اس موقع پر جب لاکھوں کشمیریوں کو دوہرے لاک ڈائون کا سامنا ہے، اشرف صحرائی بھی دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ کشمیریوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے تحریک آزادی میں وہ قربانیاں پیش کی ہیں اس کی مثال حالیہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ مودی حکومت کے تمام فاشسٹ ہتھکنڈے آزادی کی چنگاری کو دبانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ سراج الحق نے حکمرانوں کو خبردار کیا کہ پاکستان اور کشمیر کے غیور عوام کبھی بھی ایسی سازشوں کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ خطہ ضرور ایک روز پاکستان کا حصہ بنے گا۔ امیرالعظیم، لیاقت بلوچ، پروفیسر ابراہیم، فرید احمد پراچہ نے بھی اشرف صحرائی کی وفات پر اظہار افسوس کیا ۔ اگست 2019ء میں جب کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کیا گیا تو تقریباً سبھی علیحدگی پسند رہنماؤں اور اْن کے کارکنوں کو قید کیا گیا۔ اس سال بہار شروع ہوتے ہی جب بھارت میں کورونا وبا کی دوسری لہر پھیلی تو کشمیر میں علیحدگی پسند رہنماوں کے اہلخانہ نے مطالبہ کیا کہ قیدیوں کو واپس کشمیر بھیجا جائے۔اس سلسلے میں جموں کشمیر کی ایک درجن سے زیادہ جیلوں میں قید تقریباً پانچ ہزار کشمیری قیدیوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی تاہم جیلوں کے ڈائریکٹر جنرل وی کے سنگھ نے دعویٰ کیا کہ جیلوں میں جگہ کی کمی نہیں اور تمام قیدیوں کو مناسب سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموں کشمیر کی 13 جیلوں میں فی الوقت 4550 افراد قید ہیں جن میں اکثر علیحدگی پسندی یا عسکریت پسندی کے الزام میں بھی قید ہیں۔جموں کی کوٹ بھلوال جیل میں، جہاں اشرف صحرائی قید تھے، 884 جبکہ سرینگر کی سینٹرل جیل میں 612 قیدی ہیں۔ قریب تین ہزار قیدی جموں، اْدھمپور، کٹھوعہ، بھدرواہ، کشتواڑ، راجوری، بارہمولہ، کپوارہ، اننت ناگ اور پلوامہ کی ضلعی جیلوں میں قید ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ جیلوں میں کھیلوں اور تفریح کے ساتھ ساتھ طبی نگہداشت کا انتظام موجود ہے اور صفائی پر خاص دھیان دیا جاتا ہے جبکہ قیدیوں کے لیے ماسک اور سینیٹائزرز بھی دستیاب ہیں۔ جیلوں میں نئے داخلوں کے لیے کووڈ ٹیسٹ کو لازمی قراردیا گیا ہے تاہم ان دعوؤں کے باوجود عمر رسیدہ اشرف صحرائی کا کوِوڈ میں مبتلا ہو جانا اور اس کے بعد اْن کی موت نے کشمیری قیدیوں کے بارے میں تشویش کو بڑھا دیا ہے۔اْدھر نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید شبیر شاہ، یٰسین ملک اور شاہد الاسلام سمیت درجنوں حریت رہنماوں کے اہلخانہ بار بار حکام سے اپیل کر رہے ہیں کہ اْنھیں واپس وادی منتقل کیا جائے۔