چند سال قبل کسی کو اوقات یاد دلانے کے لئے طنزیہ انداز میں کہا جاتا تھا کہ ’تمہاری دو ٹکے کی اوقات نہیں ہے‘۔ تب ’ٹکا‘ بنگلہ دیش کی کرنسی نہیں تھی ۔ مگر آج ٹکا کی حیثیت بدل گئی ہے۔ آج ایک بنگالی ٹکاپاکستانی اڑھائی روپے کے برابر ہوگیا ہے۔ آج بنگالی شہری ایک دوسرے کو یہی کہتے ہوں گے کہ ’تمھاری دو روپے کی اوقات نہیں ہے‘۔ اس دوروپے کی اوقات کے پیچھے وطن ِعزیز کے ساتھ ہونے والے مظالم کی ایک لمبی داستان ہے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پوری دنیا میں خوبصورت وادیاں، پرندوں کی مدھر آوازوں سے لیس چراہ گاہیں، خامشی کو چیرتی آبشاروں کا شور، ہیبت ناک پہاڑوں کا رعب و دبدبہ، سنگلاخ چٹانوں کی خوبصورتی، بلند و بالا چوٹیوں، چاروں موسموں کا حسین امتزاج لئے یہ ملک اہل ِ مغرب کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔جنوبی پنجاب میں سردیوں کی سیر و سیاحت کے تمام تر مواقع و لوازمات موجود ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں گرمیوں کے موسم میں جہاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیسر د علاقوں کا رْخ کرتے ہیں ۔ خوبصورت وادیوں، وہاں کے شہریوں کی تہذیب و ثقافت، رسوم و رواج اور طرز ِ رہن سہن ہزاروں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دنیا کی پہلی طاقتور تہذیب ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے آثار لئے یہ وطن ہزاروں تاریخ دانوں اور آکیالوجسٹس کی دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔مگر ہم پھر بھی غریب ہیں۔ ہماری آدھی کے قریب آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حالانکہ وطن ِعزیز کے غیور عوام نے کسی بھی موڑ پر پاکستان کی غیرت و حمیت پر کبھی بھی سودا نہیں ہونے دیا۔ دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس نے کئی مواقعوں پر ناممکنات کو ممکن کردکھایا ہے۔ مثلاََ اکہتر میں دو حصوں میں بَٹ جانے کے باوجود اس ملک نے خود کو ایٹمی طاقت بنایا۔ جب دنیا کے چند ممالک ہی منرل واٹر کا نام جانتے تھے ہمارے سائنسدان کہوٹہ کی ریسرچ لیبارٹریز میں وہی منرل واٹر استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ ناقابل ِ یقین حقائق ہیں جب آبادی کی اکثریت ’ٹِشو پیپر‘ کے نام سے بھی واقف نہیں تھی تب ہمارے سائنسدان وہی ٹِشو پیپر‘ اپنے واش رومز میں استعما ل کیا کرتے تھے۔ قبل ازیں جب انگریز سامراج اور شدت پسند ہندو رہنماؤں کی چیرہ دستیوں کی بدولت بھارت نے جموں اینڈ کشمیر میں فوجیں اْتاریں تو ہزاروں غیور پٹھانوں نے انتہائی نامسائد حالات سے دوچار افواج کے شانہ بشانہ تقریباً ایک تہائی کشمیر کو ظلم سے بچالیا۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں عدلیہ کی آزادی کی مثال نہیں ملتی مگر پاکستان کے غیور عوام کو جب ایک جسٹس سے اْمید بندھی نظر آئی تو یہ عوام ایک طاقتور ترین طالع آزما ء کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ انصاف فراہم کرنے والوں کو انصاف دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اْسی جسٹس نے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی وہ بنیاد رکھی جو تاحال جاری ہے۔ پاکستانی عوام نے کبھی بھی کسی نئے سیاسی رہنماء کو مایوس نہیں کیا۔ عوام نے رہنماؤں پر اعتماد کیا۔ ہمیشہ حکمرانوں نے ہی عوام کو مایو س کیا۔ عوام نے کبھی حکمران کو گمراہ نہیں کیا۔ جب بھی کیا حکمران نے ہی عوام کو گمراہ کیا۔ مسلم لیگ نے چونکہ پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا اس لئے پاکستانی عوام نے کبھی مسلم لیگ کو مایوس نہیں کیا۔ آج بھی سیاستدان جب کوئی نئی سیاسی جماعت بنانے کا سوچتے ہیں تو ’مسلم لیگ‘ جیسے الفاظ کو جماعت کے نام میں ضرور شامل کرتے ہیں تاکہ عوامی پذیرائی حاصل ہوسکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگایا۔ عوام نے ساتھ دیا۔ مذہبی جماعتوں نے ’دین کا نظام‘نافذ کرنے جیسا نعرہ لگایا، عوام نے بھرپور پذیرائی بخشی۔’قرض اْتارو، ملک سنوارو‘ سکیم کا آغاز ہوا۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر سیاستدانوں کی جھولی میں ڈال دیئے کہ ملک کو غیر مند ممالک کی صف میں کھڑا کرو۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا۔ عوام کو محسوس ہوا جیسے پاکستان عظیم تر بننے جارہا ہے۔ عوام ایک بار پھر مشرف اور اْن کی بنائی گئی پارٹی کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو عوام میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان سے محبت کے جذبات جاگ اْٹھے۔ عوام نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار کی گدی پر بٹھا دیا۔ مسلم لیگ(نواز) نے ملک کی خوشحالی کا نعرہ لگایا عوام نے ایک بار پھر بھرپور اکثریت کے ساتھ ووٹ دیا۔ آخر میں پاکستان تحریک ِ انصا ف نے ’تبدیلی‘ کا نعرہ لگایا۔ عوام پھر ساتھ کھڑی ہوگئی۔ بلاشبہ پاکستانی عوام غیرت مند عوام ہیں۔اِس قوم کے دل اور خون میں ’پاکستان زندہ باد‘ آکسیجن کی طرح رچ بس گیا ہے۔ اس لئے اس قوم نے ملکی وقار کا نعرہ لگاتے کسی بھی رہنماء کو مایوس نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے اور سیاستدان، جرائم میں اْ ن کا ساتھ دیتے بیورو کریٹس اور دیگر عمائدین امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس قوم نے اپنی غیرت کبھی نہیں بیچی، جب بھی بیچی حکمرانوں نے بیچی۔ جس کا اظہار کتاب ’اِن دی لائن آف فائر‘ میں ایک سابق حکمران نے واشگاف الفاظ میں کیا ہے ۔ حکمرانوں کی چیرہ دستیوں، وعدہ خلافیوں، دھوکہ دہی، لوٹ مار اور کرپشن کی بدولت آج امت ِ مسلمہ کے واحد ایٹمی ملک کی معیشت گھٹنوں کے بل جھک چکی ہے۔اس عظیم الشان ملک کے غیور عوام کی غیرت کو ’دو روپے کی اوقات‘ بنانے میں ہر دور کے حکمرانوں نے قبیح کردار ادا کیا ہے۔ اِن حکمرانوں کو حیا ء و شرم کا پیکر بناکر جعلی دانش وروں، حمیت بیچتے اینکرز، تجزیہ نگاروں اور مفاد پرست کالم نگاروں نے بھی بھرپور منفی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیش نے اپنے ہر ادارے کے اختیارات، حدود و قیود کا تعین کیا ہے۔ پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ، پولیس سے لے کر فوج، بیوروکریسی سے لے کر سکول تک ہر ادارے اور سرکاری ملازم کا کردار متعین کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بنگالی معیشت نے محاورہ ہی بدل دیا ہے۔ آج اْن کی معیشت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔جبکہ ہم تاحال ایک دوسرے کو غدار ٹھہرانے میں مصروفِ ہیں۔