کوئٹہ شہر کو انگریز نے اپنی دفاعی ضروریات کے لئے آباد کیا تھا۔ برطانوی پہلے زارِ روس کو اپنی توسیع پسندی میں بہت بڑی رکاوٹ خیال کرتے تھے اور اس کے بعد اس کی جانشین کیمونسٹ حکومت کو اپنا نظریاتی حریف جانتے تھے۔ تین افغان جنگوں کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ روس کو زیادہ سے زیادہ اپنی سرحدوں سے دُور رکھا جائے اور ممکن ہو سکے تو دریائے ایموں کی قدرتی تقسیم کو اپنی دفاعی سرحد بنا لیا جائے۔ وہ تو جرّی اور بہادر مسلمان افغان قوم نے ذِلّت و رُسوائی انگریز کا مقدر کر دی تو اس نے پسپا ہوتے ہوئے دوسری قدرتی تقسیم پر اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ خوجک پہاڑ جیسے پہاڑوں پر پختہ مورچے بنائے، پہاڑوں کا سینہ چیر کر سرنگیں نکالیں اور ریلوے لائن بچھا دی تاکہ دفاعی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ خان آف قلات سے ایک وسیع قطعہ اراضی تحفے میں لیا اور وہاں اپنا مرکزی ٹھکانہ بنا لیا۔ یہ کوئٹہ شہر ہی تھا جو ’’رباط‘‘ کے کونے سے لے کر ’’کاکڑ خراسان‘‘ کے پہاڑی سلسلوں تک تقریباً یکساں مسافت پر تھا، اسی لئے اسے مرکزی حیثیت دے دی گئی۔ کوئٹہ اس قدر خوبصورت تھا کہ دنیا بھر کے سیاّح اسے ’’لِٹل لندن‘‘ کہتے تھے۔ موجودہ زرغون روڈ جس پر وزیر اعلیٰ اور گورنر ہائوس واقع ہے اس پر بلندوبالا چنار کے درخت سایہ کئے ہوتے اور مقامی لوگ اسے ٹھنڈی سڑک کہتے۔ کوئٹہ میں لوگوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ پانی موجود تھا۔ سٹاف کالج کی طرف جاتے ہوئے پانی تقسیم چوک آتا ہے۔ یہاں پر ولی تنگی ڈیم سے آنے والا پانی کنٹونمنٹ اور سویلین آبادی کے درمیان تقسیم ہوتا تھا۔ انگریز کے زمانے میں ’’بلڈی سویلین‘‘ کا پانی میں حصہ کنٹونمنٹ کے رہائشی افراد سے زیادہ تھا۔ ’’چلتن‘‘، ’’مردار‘‘ اور ’’تکتو‘‘ پہاڑوں میں انگریز نے لاتعداد چھوٹے چھوٹے ڈیلے ایکشن ڈیم بنا رکھے تھے جن سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند رہتی۔ اسی مقصد کے لئے ھنہ جھیل بنائی گئی تاکہ کوئٹہ شہر میں پانی کی سطح کبھی نیچی نہ ہونے پائے۔ مدتوں کوئٹہ شہر میں کبھی بھی پانی کا مسئلہ نہیں رہا، بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز نے کنٹونمنٹ کے باسیوں کے تعیش کو مدِّنظر رکھتے ہوئے انہیں وسیع و عریض گالف کورس بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی۔ کوئٹہ کلب اور اس وقت کے اے جی جی اور آج کے گورنر ہائوس کے لئے لان تھے مگر وہ بھی ایک محدود حصے تک۔ تمام تر دفاعی خطرات، اندرونی خلفشار اور بغاوت کے واقعات کے باوجود کوئٹہ میں انگریز نے کبھی ایک بریگیڈ سے زیادہ فوج تعینات نہیں کی۔ وقت کے ساتھ یہ حسین شہر اُجڑنا شروع ہوا۔ میں نے اس کی آخری حسین جھلک 1980ء میں دیکھی اور پھر جیسے ہی سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو اسی سال اِکاّ دُکاّ افغان مہاجرین کا سلسلہ شروع ہوا۔ چند سال بعد کوئٹہ کا قندھاری بازار واقعی قندھار لگنے لگا۔ شہر کے سویلین علاقے اور ملحقہ کنٹونمنٹ کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ افغان مجاہدین کے دفاتر قائم ہوئے، دنیا بھر کی عالمی تنظیموں اور رفاحی انجمنوں کے مراکز کھلے، اور ساتھ ہی افغان جہاد کی سرپرستی کرنے والی پاکستانی اور عالمی خفیہ ایجنسیوں نے یہاں ڈیرے جما لئے۔ پہلی دفعہ پانی کی قلت 80ء کی دہائی میں محسوس کی گئی تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر، جنرل رحیم الدین نے جاپان کی ایک فرم سے "Gamma Rays" کا سروے کرایا جس نے یہ لرزا دینے والی خبر سنائی کہ 1995ء میں کوئٹہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے ویران ہو جائے گا۔ اگست 1997ء میں مجھے بلوچستان واسا کا ایم ڈی لگایا گیا تو پانی اگرچہ موجود تھا مگر خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ساتھ کوئٹہ کے لئے پانی کے ذرائع تلاش کرنے کا معاہدہ ہوا۔ اس وقت پانی کے وسائل کی فراہمی کے سیکشن کا انچارج ڈیوڈ بوگس (David Boggs) تھا۔ یہ ایک امریکی نو مسلم تھا جس کے ایمان کی حلاوت اور عبادت میں خشیئت دیکھ کر رشک آتا تھا۔ ایرزونا کے بے آب و گیاہ علاقے میں جنم لینے،بلوچستان جیسے اس امریکی خطے میں پانی کے منصوبوں سے تجربہ حاصل کر کے صومالیہ میں تعیناتی کے دوران مسلمان والے اس شخص سے اس قدر محبت بڑھی کہ دوستی کی حد تک جا پہنچی۔ اس نے بھی اپنا طویل ٹھکانہ کوئٹہ کو بنا لیا۔ ایک دفعہ پھر "Gamma Rays" سروے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت مارشل لاء تھا اور نہ ہی کوئی جنرل گورنر تھا جو بیک جنبش قلم اجازت دے دیتا۔ ہم نے اس وقت کے کورکمانڈر سے میٹنگ رکھی تاکہ کنٹونمنٹ سمیت پورے شہر کا سروے ہو سکے۔ میٹنگ کچھ دیر انگریزی میں چلتی رہی پھر کورکمانڈر صاحب ایک دم غصے میں میری طرف متوجہ ہوئے اور اُردو میں بولے، ’’آپ کو اس علاقے کی حساسیت کا کچھ خیال ہے، آپ چاہتے ہیں ہماری تمام دفاعی معلومات دشمن کے ہاتھ چڑھ جائیں‘‘۔ میرے ساتھ رہتے رہتے ڈیوڈ پاکستانیوں کے چہروں سے جذبات پڑھنا سیکھ چکا تھا۔ ہم دونوں نے اجازت طلب کی اور ڈیوڈ نے رستے میں ہی اپنی ٹکٹ بُک کروائی اور کہا میں چند دن کے لئے پاکستان سے باہر جا رہا ہوں۔ ٹھیک تین دن بعد واپس آیا۔ اس نے اپنا کمپیوٹر کھولا، ایک سی ڈی اس میں ڈالی اور پھر کوئٹہ کنٹونمنٹ کے علاقے کو اس قدر زوم (Zoom) کیا کہ کورکمانڈر کی گاڑی کا نمبر بھی نظر آنے لگ گیا۔ وہ ہنسا اور بولا، تمہیں معلوم ہے میں نے یہ سی ڈی دہلی میں ایک ایسی دکان سے خریدی ہے جو سیٹلائٹ ڈیٹا فروخت کرتی ہے۔ اس واقعہ کو گذرے ہوئے آج 26 سال ہو چکے، لیکن آج بھی آپ کو حساّس مقامات کے باہر یہ بورڈ ملے گا ’’تصویر اُتارنا منع ہے‘‘۔ کوئی ملک دشمن پکڑا جائے تو اس کے قبضے سے حساّس مقامات کی تصویریں اور نقشے برآمد ہوتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی کہ جہالت بھی ایک ’’عطا‘‘ ہے جس پر کچھ لوگ فخر کرتے ہیں، لیکن گذشتہ کچھ دہائیوں سے کسی کو غدّار یا ملک دشمن کہنے کا ایک اور راستہ نکالا گیا ہے۔ اگر آپ انتہائی نیک نیتی سے بھی پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی، سیاسی اور عسکری حالات کا تذکرہ کریں تو اقتدار کے ’’بالاتر مراکز‘‘ میں غصے میں لال آنکھیں آپ کو گھورنے لگتی ہیں۔ خوفناک لہجے میں کہا جاتا ہے ’’یہ دشمن کی زبان بولتا ہے‘‘، دیکھو بھارت کے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی پاکستان کے بارے میں یہی کچھ کہتے ہیں۔ آپ پاکستان کے سویلین حکام اور سیاست دانوں کے بارے میں بھلے جو کچھ کہہ دیں، انہیں نسل در نسل غدّار ثابت کریں آپ کو کھلی چھٹی ہے لیکن اگر آپ نے حساّس مقامات کی جانب اپنی آنکھ بھی گھمائی تو آپ کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو ایک ایسے معصوم لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے جو پورے شہر کے مقامات کی تصویریں کھینچتا ہوا اچانک کسی حساّس مقام کی طرف جا نکلے اور بورڈ کی پروا کئے بغیر تصویر کھینچتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی جیب میں اگر ٹورازم کا نقشہ بھی ہو تو وہ قومی راز بن جاتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انگریز نے 1860ء جب میں تعزیرات ِ ہند نافذ کیں تو اس میں سیکشن 124 بھی رکھا جس کے تحت تمام ’’بلڈی انڈین‘‘ غدّار تھے۔ ان بلڈی انڈین میں سے اگر کوئی انگریز سرکار کے معاشی، سیاسی اور عسکری اقدامات کے خلاف صرف بولتا یا لکھتا تو غدّاری کا مقدمہ درج کر لیا جاتا۔ دنیا بدل چکی ہے، انگریز چلا گیا لیکن بائیس کروڑ عوام آج بھی حب الوطنی اور غدّاری کی پُل صراط پر چلتے چلے آ رہے ہیں۔ سیٹلائٹ ہم سب کے گھروں میں جھانک رہا ہے اور امریکہ اور برطانیہ نے اپنے سیکورٹی پیپرز میں ہمارے راز افشا کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ان خفیہ دستاویزات میں کئی ’’محب وطن‘‘ کہلانے والوں کے چہروں سے نقاب اُلٹ چکا ہے۔ بکنے کے عمل میں کس نے اس ملک کو کہاں، کب اور کیسے بیچا، اب کھل کر سامنے آ چکا ہے، مگر ہم ابھی تک اس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ اگر فلاں لفظ منہ سے نکالا تو پھر دیکھو تم پر کیسے غدّاری کے مقدمے بنتے ہیں۔