بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور ریاست پٹیالہ کا مہاراجہ، امریندر سنگھ مارچ 2005ء میں واہگہ بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوا تو مشرف دَور میں پاک بھارت دوستی کا خمار ایسا تھا کہ بیس کلو میٹر سڑک کے دنوں طرف لوگوں کو بھارتی پرچم پکڑا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ سکھوں سے متعلق تمام یادگاروں کی یاترا کرتا، پٹیالہ گرائونڈ میں اپنے ’پُرکھوں‘‘ کی عمارتیں دیکھتا میرے دفتر آ نکلا۔ میں اس وقت ڈائریکٹر جنرل ’’محکمہ آثارِ قدیمہ‘‘ تھا۔ امریندر سنگھ نے کہا کہ میں رنجیت سنگھ کے چالیس سالہ کامیاب دورِ حکومت کے بعد سکھوں کے دس سالہ دورِ زوال کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں، لیکن بہت کم مواد ملا ہے۔ امریندر سنگھ کے ساتھ انار کلی کے مقبرے میں قائم آرکائیوز کی سمت جاتے ہوئے میں نے اسے اس زوال کی مختصر کہانی سنانا شروع کی۔ میں نے کہا ’’اس زوال کی مثال اس عرب کہاوت جیسی ہے جس میں ایک عرب نے اپنے اونٹ کو سردی سے بچانے کے لئے خیمے میں تھوڑی سی جگہ دی اور پھر صبح تک اونٹ خیمے کے اندر تھا اور عرب خیمے سے باہر۔ رنجیت سنگھ کا طرزِ حکومت اس کے زوال کی بنیاد بنا۔ اس کے ذہن میں ایک دُھن سوار تھی کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اپنی ایک فوج منظم کرے۔ رنجیت سنگھ نے منظم اور ماڈرن فوج بنانے کے لئے فرانس سے جنرل وینچورا (Ventura) کو خصوصی طور پر بلایا، جس نے تھوڑے عرصے میں ایک ڈسپلن والی خالصہ فوج بنا دی۔ آغاز میں اس فوج کی تعداد صرف چار ہزار تھی، لیکن 1839ء میں جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا تو اس وقت یہ چالیس ہزار پیدل اور ایک لاکھ گھڑ سوار دستوں پر مشتمل تھی، جس کے ساتھ ہلکا توپ خانہ بھی تھا۔ فوج کا ہیڈ کوارٹر لاہور کے باہر انجینئرنگ یونیورسٹی کے پیچھے ایک جگہ تھی جسے آج بھی ’’بدھو کا آوا‘‘ کہتے ہیں۔ رنجیت سنگھ اس چاک و چوبند فوج کی تنظیم میں ایسا مگن ہوا کہ وہ بھول گیا کہ حکومت چلانے کے لئے ایک بہترین سول انتظامیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں وہ دنیا کا واحد حکمران بن گیا جس نے کسی قسم کی اچھی انتظامی مشینری نہ بنائی۔ اسی لئے چھوٹے چھوٹے انتظامی اُمور کے لئے ہر جگہ فوج کو بھیجا جانے لگا۔ مالیہ وصول کرنا ہو، ڈکیتی ہو، قبائلی تصادم ہو، ہر جگہ فوج کو حالات ٹھیک کرنے کے لئے بھیجا جاتا۔ یوں فوج کو اپنی اہمیت کا احساس ہونے لگا اور اس نے ملکی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی۔ رنجیت سنگھ کی سکھ قوم میں مقبولیت کی وجہ سے فوج نے خود کو انہی ذمے داریوں تک محدود رکھا، لیکن اسکے بیٹے کھڑک سنگھ کے تخت نشین ہوتے ہی سکھ دو بڑے سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ ڈوگرے اور سندھنانوالے۔ سندھنانوالہ گروپ کا سردار دھیان سنگھ فوج کے ہیڈ کوارٹر ’’بدھو کے آوے‘‘ پہنچا اور ان کو یہ خفیہ اطلاع دی کہ کھڑک سنگھ پنجاب کو انگریزوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ فوج نے اس رپورٹ پر پورے پنجاب میں ایک پراپیگنڈا مہم شروع کر دی، اور کھڑک سنگھ کو غدّار قرار دے کر تخت سے اُتار دیا۔ اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو جو لڑکپن میں فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور فوج اسے اپنا ہی نمائندہ سمجھتی تھی، اُسے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ یوں فوج نے دو اختیار اپنے قبضے میں لے لئے، ایک مہاراجہ کی تقرری اور دوسرا یہ فیصلہ کرنا کہ غدّار کون ہے اور محب وطن کون۔ نونہال سنگھ ایک سال بعد ہی ایک حادثے میں مارا گیا تو سندھنانوالہ گروپ نے کھڑک سنگھ کی بیوہ چاند کور کو فوج سے پوچھے بغیر ہی تخت پر بٹھا دیا۔ دھیان سنگھ کہاں چین سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو ساتھ ملایا اور ایک بار پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا۔ جرنیلوں نے شیر سنگھ کی حمایت کر دی۔ ستر ہزار فوجی دستوں نے اپنے ہی شہر لاہور پر حملہ کر دیا۔ دروازے پر متعین فوجیوں نے دروازے کھول دیئے اور لاہور کی محافظ فوج لاہور کے شہریوں پر ٹوٹ پڑی۔ کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ آخر شہریوں کی جانیں بچانے کے لئے چند کور شیر سنگھ کے حق میں دستبردار ہو گئی۔ شیر سنگھ نے تین سال حکومت کی، لیکن چونکہ اُسے اقتدار فوج نے دلوایا تھا، اس لئے اس کے سارے فیصلے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں ہونے لگے۔ جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدّار کا لقب دینا کافی تھا۔ اب ڈوگرا گروپ فوج کی اشیرباد سے حکمران تھا اور سندھنانوالے معتوب۔ ڈوگرا گروپ نے یکے بعد دیگرے اپنے مخالفین مہاراجہ شیر سنگھ اور دھیان سنگھ کو قتل کیا اور بدلے میں ہیرا سنگھ نے سندھناوالوں کے کئی افراد قتل کئے اور فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا اور عرض گزاری کہ سندھنانوالے اصل میں غدّار ہیں اور قتل و غارت چاہتے ہیں۔ اگر اقتدار اس کے گروہ کو دے دیا جائے تو سپاہی کی تنخواہ نو روپے سے بڑھا کر بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تیس روپے ماہوار کر دی جائے گی۔ ایک بار پھر فوج لاہور پر حملہ آور ہو گئی۔ پوری رات توپ خانے سے گولہ باری ہوتی رہی، جب فوج صبح شہر میں داخل ہوئی تو لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور ہیرا سنگھ کو وزیر اعظم۔ اس نے فوج کی مراعات میں حسب وعدہ اضافہ کر دیا اور تھوڑے عرصے بعد ڈھائی روپے تنخواہ اور بڑھا دی، لیکن ایک دن جرنیل اس کے ایک چہیتے مشیر سے ناراض ہو گئے اور ہیرا سنگھ کو ہی اقتدار سے علیحدہ کر کے گرفتار کرنا چاہا مگر وہ بھاگ نکلا۔ فوج نے اس کا تعاقب کر کے مار دیا اور اس کے ماموں جواہر سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اب بدھو کے آوے والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور فوج میں تقسیم کر دیئے، جو ٹیکس اکٹھا ہوتا فوج پر خرچ کر دیا جاتا مگر مطالبات بڑھتے گئے۔ آخر ایک دن جواہر سنگھ کو ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں طلب کیا گیا۔ اس کی بہن رانی جنداں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر سفارش کے لئے آئی، مگر جرنیلوں نے بہن کے سامنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اب نو سالہ دلیپ سنگھ حکمران تھا اور رانی جنداں سرپرست، لیکن کوئی بھی فوج کے ڈر سے وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔ گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے بدھو کے آوے والوں کے وفادار بھی انجام سے ڈر کر بھاگ گئے۔ کمسن دلیپ سنگھ کو کچھ ناموں کی پرچیاں دی گئیں اور قرعہ نکال کر لوگوں کو زبردستی وزیر بنایا گیا۔ خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن بدھو کے آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ رانی جنداں کے پاس جرنیلوں کی بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ پراپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج استعمال کرتی تھی، اس نے بھی شروع کیا اور سرگوشیوں کی مہم چلائی کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا اندازہ نہ تھا، اس لئے وہ مرنے مارنے پر تیار تھا، لیکن جرنیلوں کو اندازہ تھا اور وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے مخالفت کی،رانی جنداں نے پراپیگنڈا عام فوجیوں تک پھیلا دیا۔ اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کے لئے کوئی راستہ نہ تھا، طاقتور خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو عوام نے جس کا انہوں نے پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا اس کا ساتھ نہ دیا اور پہلے ہی معرکے میں 8000 مارے گئے۔ بدھو کا آوا ویران ہو گیا۔ سکھ قوم تو آج بھی زندہ ہے، لیکن خالصہ فوج تاریخ کا حصہ بن گئی‘‘۔ امریندر سنگھ پرانی دستاویزات کے ورق اُلٹتا رہا اور ہمہ تن گوش رہا۔ یوں لگتا تھا اس کی دلچسپی ختم ہو چکی ہے۔ وہ یہاں سے سکھوں کے زوال پر تحقیق کے لئے دستاویزات کی کاپیاں تو نہ لے جا سکا، مگر جنرل یحییٰ خان کی منظورِ نظر جنرل رانی کی مشہور و معروف صحافی بیٹی کی زُلفوں کا ایسا اسیر ہوا کہ اسے ساتھ لے گیا۔ چند ماہ بعد الیکشن تھے۔ انتخابات ایک طرف رہ گئے اور موصوف ہیلی کاپٹر پر محترمہ کے ساتھ محو پرواز رہنے لگے۔ ایک اور اونٹ خیمے میں داخل ہوا اور امریندر سنگھ پھر دوبارہ کبھی وزیر اعلیٰ نہ بن سکا۔