آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری مدت پوری ہونے پرریٹائر ہوجائونگا ،فوج خود کو سیاست سے دور کرچکی اور دور ہی رہنا چاہتی ہے ،مضبوط معیشت کے بغیر قوم اپنے ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے نہ سفارتکاری ممکن،بیمار معیشت کی بحالی ہر حصے دار کی ترجیح ہونی چاہیئے۔ عساکرپاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی سروس کے دوران ہمیشہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ مرکوز رکھی ہے ،مذہبی انتہا پسندی ہو یادہشت گردی ہر قسم کے چیلنجز کیخلاف انھوں نے افواج پاکستان کو مستعد رکھا ہے ،یہی وجہ ہے کہ مذہبی و سیاسی قیادت کے علاوہ معاشی و صنعتی ترقی کے لیے بھی کوشا ں رہے ہیں ۔ ان کی کمان میں افواج پاکستان نے نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا بلکہ ملک دشمن قوتوں کو بھی دندان شکن جواب دیا ،27فروری2019کو جب دشمن نے جارحیت کی تو پاک فضائیہ کے مشاق دستے نے فضاہی میں ان کے دو جہازوں کو نشانہ بنا کر پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا ۔بعد ازاں افواج پاکستان نے ایک مربوط انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کر کے نہ صرف مغربی سرحد کو محفوظ بنایا بلکہ مشرقی سرحد سمیت بلوچستان میں بھی امن قائم کیا ۔ گزشتہ روز آرمی چیف نے مدت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرڈہونے کااعلان کیاہے ،اس اعلان کے بعد جہاںیہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہیں وہیں پر ہمارے سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں مت لائیں ۔آئین پاکستان میں ہر ادارے کی ذمہ داری کا تعین کی جا چکا ہے ،لہذا کسی بھی ادارے کو دوسرے ادارے کے معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے ۔اگر ہر ادارہ آئین میں متعین کردہ حدود میں رہ کر کا م کرے گا تواس سے نہ صرف آئین کی بالادستی قائم ہو گی بلکہ جمہوری نظام بھی بہتر انداز میں کام کر سکے گا ۔ سیاستدانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔اس ملک کی سلامتی اور بقا،ہر پاکستانی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں غلطیوں کی بنا پر ہی ملک دولخت ہوا تھا ،تب سیاستدان اگر آئین وقانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے تو ملک کبھی میں دوٹکڑے نہ ہوتا ،جب ہوس اقتدار حد سے زیادہ بڑھ جائے ،دوسروں کے منڈیٹ کو تسلیم نہ جائے تو پھر المیہ ہی جنم لیتا ہے ۔سیاستدانوں کی غلطیوں کے باعث ہی بلوچستان میں شورش نے جنم لیا۔ماضی میں امن مخالف قوتوں نے "پختونستان" کا شوشہ چھوڑا اور ملک میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔اس لیے ہمارے سیاستدانوں ،اداروں اور عوام کو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے، ملک کی سلامتی اور یکجہتی کیلئے درست فیصلے کرنا ہوں گے۔ہمیں اپنی دفاعی قوت کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہے،اب بھی ملک میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرنا چاہتی ہیں۔اس وقت،سیلاب اور مخدوش معاشی صورتحال سے نمٹنا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، وفاق اور صوبوں میں الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہونے کی بنا پر ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔وفاق میں بھی تیرہ جماعتیں برسراقتدار ہیں ،ہر سیاسی پارٹی اپنے مطالبات کی لسٹ لیے وزیر اعظم کو بلیک میل کر رہی ہے ،ان حالات میں نئے الیکشن کی طرف جانا ہی مناسب ہو گا کیونکہ ہماری معاشی صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے ،کوئی بھی بیرونی سرمایہ کاریہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔جب تک ایک مضبوط سیاسی حکومت قائم نہیں ہوتی تب تک حالات جوں کے توں ہی رہیں گے ،جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی جمہوری استحکام کی فضاء بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کے عملاً ایک صفحے پر آنے سے استوار ہوتی ہے ،ماضی میں بھی جب سیاسی اور عسکری قیادت کے اتفاق سے حکومتی معاملات چلتے رہے ،اس وقت بیرورنی سرمایہ کاری بھی تیزی کے ساتھ آئی ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ فیصلوں سے ملک میں جمہوریت کی بنیادیںمزید مضبوط و مستحکم ہو گی اور ماضی جیسی محلاتی سازشوں اور بعض غیرجمہوری عناصر کی خواہشات کے باوجود کسی ماورائے آئین اقدام کی کوئی گنجائش نہیں نکل پائے گی اور ارض وطن کی محافظ عساکر پاکستان اپنی خالص پیشہ ور قیادت کی زیرکمان دفاع وطن اور تعمیر ملک و ملت کے تقاضے احسن طریقے سے نبھاتی رہیں گی ۔گو آرمی چیف کی تقرری وزیرا عظم کا صوابدیدی اختیار ہے ،مگر اس صوابدیدی آئینی اختیار کو ملکی اور قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے تقاضوں کے بجائے ذاتی مقاصد اور مفادات کیلئے بروئے کار نہیں لانا چاہیے ۔اس سلسلے میں وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنانا چاہیے ۔کیونکہ جب بھی اس اہم تقرری کے لیے کسی وزیر اعظم نے ملک وقوم کی بجائے ذاتی منشا کو ترجیح دی تو نتیجتاً ادارہ جاتی ہم آہنگی کے بجائے کشیدگی اور کھچائو کی فضا میں سلطانی جمہور پر بھی زد پڑی،اسی سے فائدہ اٹھا کر ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ اس لیے سیاستدان پارلیمنٹ کو مضبو ط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کریں تاکہ تمام مسائل پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے حل ہوں ۔پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو اس سے نا صرف ہر ادارہ آئین پاکستان میں متعین کردہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا بلکہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں میں مثالی ہم آہنگی اور تعاون کی فضا بھی قائم ہو سکے گی۔