صبح کا وقت ہے ،ایک بچی سکول کے نیلے سفید یونیفارم میں اپنے چھوٹی بہن کو پیچھے بٹھائے ہوئے سڑک کے کنارے کنارے سائیکل چلاتی سکول جا رہی ہے اسے دیکھ کر دل خوشی سے بھر گیا۔وہ بچی کسی سفید پوش گھر کی معلوم ہوتی تھی لیکن سائیکل چلاتے ہوئے اس کا اعتماد دیکھنے والا تھا۔یہ اعتماد اسے یقیناً زندگی کی سڑک پر چلتے ہوئے ہمیشہ کام آئے گا۔ اگر یہ بچی پیدل سڑک پر جارہی ہوتی تو اس کے اعتماد کا عالم یہ نہ ہوتا پھر وہ عدم تحفظ سے دوچار ایک سہمی لڑکی ہوتی اور اس طرح سر اٹھا کر دنیا کو نہ دیکھتی۔یقیناً اس کا گھر سکول سے دور ہو گا۔خوش قسمتی سے اس کے پاس سائیکل کی سواری موجود ہے ۔اگر اس کے پاس یہ سائیکل نہ ہوتی تو پھر اس کے غریب والد کے لیے بچی کو گھر سے سکول لانا لیجانا ہی مشکل۔تھا ایسے میں بچی کا تعلیمی سفر رک جاتا۔ سوچا کہ کتنی بچیاں اس مجبوری کی وجہ سے سکول جانا چھوڑ دیتی ہیں کہ گھر سے سکول دور ہے اور والد یا بھائی اسکول لیجانے اور لانے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے جبکہ کوئی سواری ویگن یا رکشہ لگوا نا بہت مہنگا پڑتا ہے۔سائیکل پر اسکول جاتی ہوئی بچی کا اعتماد اور سہولت دیکھ کر خیال آیا کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کو گورنمنٹ کی طرف سے سائیکل دینی چاہیے۔اگر یہاں کالجوں یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو لاکھوں کے لیپ ٹاپ دئیے جا سکتے ہیں تو سرکاری سکول کے بچے بچیوں سائیکلیں کیوں نہیں۔ تازہ ترین خبر ہے کہ لاہور میں ٹرانسپورٹ کے لیے چلا ئی جانے والی بسوں کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے اور ان میں وقفہ بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسکول کالج اور یونیورسٹی کی بچیوں کو خاص طور پر بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں خواتین ہی جانتی ہیں کہ سڑک کے کنارے بس کا انتظار کتنا اذیت ناک ہے۔ہم جب ٹرانسپورٹ کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں تو بڑے شہروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی چھوٹے مضافاتی شہروں میں ٹرانسپورٹ کے مسائل پر نہیں سوچا۔وہاں پر بھی بچیاں اسکول ، کالج جاتی ہیں۔ان کو آنے جانے میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سائیکل ہی وہ واحد سواری ہے جس کو فروغ دے کر ہم بچیوں کے سکول کالج جانے کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔اسی طرح دوسرے مرحلے پر سکوٹیز بھی دی جاسکتی ہیں جو طور پر خواتین کے لیے تیار کی گئی موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں۔ گذشتہ دور میں شہباز شریف حکومت نے پنجاب میں اس حوالے سے اقدامات کیے تھے اور اور گلابی رنگ کی سکوٹی خواتین کو آسان اقساط پر دیں تھیں۔انڈیا، سری لنکا ،نیپال میں بہت عرصے سے خواتین سائیکل اور موٹر سائیکل چلا رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں رفتہ رفتہ اب لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہوئی نظر آنے لگی ہیں ۔یہ دیکھ بہت خوشی ہوتی ہے کہ اب بچیاں اپنی ماؤں کو پیچھے موٹر سائیکل پر بٹھا کر بڑے اعتماد کے ساتھ گھر کے امور نمٹانے کے لیے ساتھ شہر میں موٹر سائیکل چلاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اسی کی دہائی تک سائیکل پاکستان میں بہت چلائی جاتی تھی۔پروفیسر صحافی گزٹڈ آفیسر بھی سائیکلوں اپنی کام کی جگہوں پر جایا کرتے تھے۔اسکول کالج جانے والے طالبعلم تو باقاعدگی سے سائیکل ہی استعمال کرتے تھے۔سکولوں میں سائیکل سٹینڈ ہوتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ سائیکل پیچھے چلی گئی اور خوشحال گھروں کے لڑکوں میں موٹر سائیکل کا استعمال خوشحالی کا علامت بن گیا۔اب بات گاڑیوں تک پہنچ چکی ہے۔بینک سے لیز پر گاڑی ملنا شروع ہوئیں یوں سڑکوں پر بے تحاشا گاڑیاں آ گئیں جس سے لامحالہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ پاکستان میں سائیکل غریب کی سواری بن کے رہ گئی ہے ۔سطحی سوچ رکھنے والے معاشروں میں جہاں نمائش سے دوسروں کو مرغوب کرنے کی سوچ جڑ پکڑ جائے وہاں اسی طرح ہوتا ہے۔جب کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں چین ،جرمنی، نیدرلینڈ ،ھالینڈ میں سائیکل وہاں کے کلچر کا حصہ ہے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے دس ممالک جہاں سب سے زیادہ سائیکل کی سواری استعمال کی جاتی ہے وہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ان میں چین ،جاپان،نیدر لینڈ ،ڈنمارک اور جرمنی شامل ہیں۔ نیدر لینڈ وہ ملک ہے جہاں 99 فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں یعنی جتنے بالغ لوگ ہیں کم و بیش اتنی سائیکلیں اس ملک میں موجود ہیں۔ کریم احمد نے اپنی کتاب چین سے چین تک میں لکھا ہے کہ چین میں سائیکلیں سڑکوں کے کنا رے کھڑی ہوتی ہیں ،جسکو سائیکل کی ضرورت ہوتی ہے وہ وہاں سے سائیکل لیتا ہے اور جہاں تک اس نے جانا ہے وہاں جاتا ہے پھر وہاں کے سائیکل اسٹینڈ پر چھوڑ دیتا ہے۔یہ سائیکلیں چائنا حکومت کی طرف سے سائیکل سٹینڈ پر کھڑی ہوتی ہیں تاکہ لوگ جب چاہیں سائیکل استعمال کر سکیں۔ سائیکل کو دنیا بھر میں گرین سواری کا درجہ دیا جاتا ہے کیونکہ سڑکوں پر لاکھوں سائیکلیں بھی چل رہی ہوں تو فضا ،آلودگی سے محفوظ رہتی ہے،سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں اس سواری کی ضرورتوں نیدر لینڈ ڈنمارک اور جرمنی، جاپان اور چین سے کہیں زیادہ ہے مگر ہم سائیکل کو یہاں رواج دینے میں ہچکاہٹ شکار ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ خصوصاً سکول کی بچیوں کو سرکاری سطح پر سائیکلیں دینے اور عمومی طور پر سائیکل کو رواج دینے کے لیے قومی پالیسی بنانی چاہیے سڑکوں کے کنارے سائیکل چلانے کے لئے الگ لین رکھنے کا بھی سوچا جائے۔جن ملکوں میں سائیکل چلائی جاتی ہے وہاں مین سڑکوں کے ساتھ ساتھ سائیکل چلانے کے لیے الگ لین بنائی جاتی ہے بلاشبہ سائیکل کو ہر سطح پر رواج دینا چاہیے لیکن یہ کالم صرف اسی لئے لکھا گیا ہے کہ متوسط اورسفید پوش گھروں سے آنے والی سرکاری اسکو لوں کی طالبات کو سرکار کی طرف سے سائیکلیں دی جائیں تاکہ خوفناک مہنگائی کے اس دور میں اسکول آنے جانے کے مسائل ان کے تعلیمی شوق کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔