حفیظ ہوتے تو کیا کہتے‘ یہی کہ بڑے زوروں سے جتوایا گیا ہوں۔ شفاف ترین الیکشن میں تحریک انصاف نے وہ کامیابی حاصل کی ہے کہ ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ شفافیت کا عالم بے پناہ تھا۔ رچر سکیل پر شفافیت کی شدت گیارہ تھی۔9درجے پر سونامی آ جایا کرتا ہے یہاں سونامی پلس ان ٹو پلس کی شدت تھی۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا ہے کہ کوئی بھی جماعت چاہے تو چار کے بجائے آٹھ ڈبے کھلوالے۔ کھلے میدان کی فتح کا مزہ بھی خوب ہوتا ہے لیکن بند کمروں سے برآمد ہونے والی فتح کا تو جواب ہی نہیں۔

کچھ ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ نے پہلے ’’ہنگ‘‘ ہونے کا ارادہ باندھا تھا۔ پھر نظر ثانی کی یہ سوچ کہ ہنگ ہوں گی تو تنگ ہوں گی چنانچہ معاملہ سیدھا سادا اکثریت کی طرف چلا گیا۔ مخلوط حکومت بنانے کو اب بھی بن سکتی ہے لیکن ضرورت نہیں ہے۔ آزاد ارکان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہی ہے‘ پھر حق رفاقت ادا کرنے کو خان صاحب چاہیں تو جی ڈی اے‘ باپ وغیرہ کو وزارتیں دے دیں چاہے تو نہ دیں۔ کہتے ہیں کاٹھ کی ہنڈیا زیادہ دیر نہیں رہتی۔ شاید اسی لیے اس بار بند کمروں سے موم کی ہنڈیا نکالی ہے، کاٹھ کی چلے نہ چلے‘ یہ تو چلے گی، ہنڈیا سازوں کو یقین ہے۔

٭٭٭٭٭

ایک انگریزی اخبار کی شہ سرخی خوب بلکہ خوب تر ہے۔ خاں صاحب کی بڑی تصویر کے ساتھ یک لفظی سرخی ہے۔ Established (اسٹیبلشڈ) اسے ذومعنی مت سمجھیے، اس کے ایک ہی معنی ہیں یعنی پکے ہو گئے۔ یا یہ کہ خان صاحب کو ایسی جیت ملی ہے جو پکی ہے۔ نواز شریف نے 2013ء میں جو جیت حاصل کی تھی وہ پکی نہیں تھی۔ چند ہی مہینوں بعد اس کا پلستر ادھڑ گیا تھا‘ پھر اینٹیں نکل گئیں پھر ستونوں کا ڈھانچہ رہ گیا اب وہ بھی ریگ رواں بن گیا۔ اس اسٹیبلشڈ جیت میں الیکشن کمشن کے الزام دھرنے والی کوئی بات نہیں وہ تو خود رات بھر ٹی وی دیکھ دیکھ انتخابی نتائج مرتب کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ٹی وی والوں کو نتائج کہاں سے مل رہے تھے یہ سوچنے کی زحمت تو ٹی وی والوں نے بھی نہیں کی۔ آم مل رہے ہیں‘ آم کھائو‘ کس پیڑ سے آئے ہیں یہ بھی بھلا کوئی سوچتا ہے‘مبارکباد دینا سب پر واجب ہے‘ جمائما خان نے بھی دی ہے ۔

٭٭٭٭٭

مسلم لیگ کے ساتھ کوئی ہاتھ نہیں ہوا۔ اسی کالم میں چند روز پہلے ملائے اعلیٰ سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار کے حوالے سے بتایا تھا کہ خان کو 116سیٹیں دینے کا طے ہوا ہے۔ وہی ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوا۔ یہ طے تھا کہ مسلم لیگ کے پاس پنجاب بھی نہیں رہے گا۔ وہی ہوتا نظر آیا، چنانچہ مسلم لیگ کے ساتھ واقعی میں کوئی ہاتھ نہیں ہوا البتہ زرداری صاحب کے ساتھ ہو گیا۔ ایک نہیں دو دو۔

انہیں ’’ہنگ‘‘ کا بتایا گیا تھا۔ وفاق میں بھی اور پنجاب میں بھی۔ اسی وعدے پر اعتبار کرتے ہوئے جان عالم زرداری نے دو دو وعدے کیے تھے ایک یہ کہ مرکز میں ہمارا وزیر اعظم ہو گا۔ دوسرے یہ کہ پنجاب کی حکومت میں بھی کنگ میکر ہم ہوں گے، یعنی اسی اسی نوے نوے سیٹیں وفاق میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ کو ملیں گی پچاس ساٹھ ہماری ہوں گی۔ حکومت سازی ہمارے بغیر نہیں ہو سکے گی اور ہم بدلے میںبڑا عہدہ مانگیں گے۔

لیکن ہنگ ہونے کا ارادہ یا تو آخر میں بدلا گیا یا یہ کہ ایسا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں‘ جامع حکمت عملی کے تحت ایسا ارادہ صرف ظاہر کیا گیا اور زرداری صاحب اعتبار کر کے جھٹ سے سنجرانی ایکسپریس میں سوار ہو گئے اور اب؟

پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس جتنی سیٹیں حکومت سازی سے کم ہیں‘ عین بین اتنی ہی آزاد گروپ کے پاس ہیں گویا سادہ اکثریت مل گئی۔ پیپلز پارٹی کو چھ ملی ہیں، چاہے تو ادھر ڈال دے چاہے تو اُدھر بات ایک ہی ہے۔ جو کنگ ہے، وہ خود ہی کنگ میکر ہے پھر بھی ضرورت ہوئی تو فارورڈ بلاک کی سہولت بھی دستیاب ہو گی۔

زرداری صاحب پر اتنی نوازش البتہ ضرور ہوئی کہ سندھ ان سے نہیں لیا گیا ورنہ چاہنے والے وہاں بھی تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت دلوا دیتے تو آپ کیا کر لیتے۔

پنجاب کا معاملہ بالکل آسان ہے۔ شہباز شریف تحریک چلانے کے قابل نہیں۔ ویسے بھی وہ تین چار روز تک آزاد پنچھی رہیں گے۔ پھر اندر ہو جائیں گے۔ قول زرّیں یہ ہے کہ جو بھائی کا نہ ہو سکا وہ ہمارا کیا ہوگا۔ ان کے بعد حمزہ رہیں گے، وہ بھی تحریک نہیں چلا سکتے۔ معاملہ فی الحال تو ختم۔ شہباز کو تعاون کی شاباش البتہ جیل میں اچھی کلاس کی صورت مل سکتی ہے۔

٭٭٭٭٭

تحریک اللہ اکبر اور تحریک لبیک کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ انتخابات کے بعد تحریک اللہ اکبر نے جو پیغام جاری کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ اپنے مولا کی رضا پر راضی ہے یعنی راضی برضا۔ تحریک کو اپنے مولا سے کوئی شکایت نہیں۔ تحریک لبیک البتہ کچھ دلبرداشتہ ہے۔

ہر دو جماعتوں کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگلے الیکشن میں جو نہ جانے کب کال کرنے پڑ جائیں۔ ان کی خدمات پھر سے درکار ہوں گی۔ تلافی مافات کی صورت تب شاید نکل آئے ’’مولا‘‘ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

٭٭٭٭٭

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پولنگ کیمپوں سے پیپلز پارٹی کے پولنگ ایجنٹوں کو نکالے جانے پر یہ برجستہ سوال کیا کہ حیران ہوں ایسی ہدایات کہاں سے آ رہی ہیں۔ لیجیے      ع

پوچھتی ہیں وہ کہ غالب کون ہے

حنا ربانی طویل عرصے سے غالب شناس رہی ہیں لیکن شاید غالب کی انصاف نوازی اوور ڈوز ہو گئی سو انہیں بھی سوال کرتے ہی بنی

٭٭٭٭٭

قومی اثاثے عابد باکسر کا بیان چھپا ہے اعلانیہ کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔

جملہ قومی اثاثوں نے تحریک انصاف ہی کو ووٹ دیا لیکن بیان سب نے نہیں دیا۔ جیسا کہ ان سے بھی بڑے قومی اثاثے رائو انوار ہیں۔ انہوں نے ووٹ تو دیا‘ بیان نہیں دیا۔