حکمرانی مسلم معاشرے میں خدمت خلق کا ذریعہ تھی،خوف خدا سے سرشار انسانوں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی کا ذریعہ اور فساد فی الارض کو روکنے کا موثر ہتھیار مگر پھر یہ ظلم وتعدّی کا آلہ بن گئی۔ جمہوری معاشروں میں یہ پھر خلق خدا کی زندگی کو آسان اور معاشرے کو طویل انسانی جدوجہد کے مفید ثمرات سے فیضیاب کرنے کا سبب بن رہی ہے مگر بیشتر مسلم ممالک میں کارطفلاں ہے۔ ریک میں سجی کتاب ’’حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ ‘‘پر نظر پڑی اور جستہ جستہ دیکھنا شروع کیا تو لطف آگیا چند واقعات قارئین کی نذر ہیں ؎ گر قبول افتد زہے عزو شرف ایک روز مشہور شاعر جَرِیر کو بارگاہِ خلافت میں اِذنِ باریابی ملا۔ اُس نے ایک نظم پڑھی جس میں اہلِ مدینہ کے مصائب و آلام اور مشکلات کا ذکر تھا۔ حضرتِ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ نے اہل مدینہ کے لیے غلہ اور نقد روپیہ بھیجنے کا حکم دیا اور جریر سے پوچھا: تم کس جماعت کے ہو، مہاجرین سے یا انصار سے یا اُن کے اَعِزَّا و اَقرِبا سے یا مُجاہدین سے؟ اس نے کہا: میں ان میں سے کسی سے نہیں ہوں۔ فرمایا:پھر مسلمانوں کے مال میں سے تمہارا کیا حق ہے؟ اس نے کہا: ’’اگر آپ میرے حق کو نہ روکیں تو اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں میرا حق مقرر فرمایا ہے۔ میں ’’ابنِ سبیل‘‘(مسافر) ہوں۔ دُور دراز سے سفر کر کے آپ کے دروازے پر آ کر ٹھہرا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اچھا! تم میرے پاس آہی گئے ہو تو میں اپنی جیب سے تمہیں بیس درہم دیتا ہوں، اس حقیر رقم پر تم میری تعریف کرو یا مذَمَّت؟ میری مدح کرو یا ہجو؟ جریر نے اِس رقم کو بھی غنیمت سمجھ کر لے لیا اور باہر آ گیا۔ دوسرے شعرا نے اسے بارگاہِ خلافت سے باہر نکلتے دیکھا تو بے تابی سے پوچھا: ’’کیسا معاملہ رہا؟‘‘ جریر نے جواب دیا: ’’اپنا راستہ ناپو، یہ شخص شعراء کو نہیں گداگروں کو دیتا ہے۔‘‘ ایک سائل خدمت میں حاضر ہوا اور گورنر کی شکایت کی کہ وہ میری زمین واپس نہیں دلواتا، سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا: حلیے نے دھوکہ دیا کہ ہم نے اسے نیک سمجھ کر گورنر بنا دیا، میں نے اسے لکھا بھی تھا کہ جو شخص اپنے حق پر گواہی پیش کر دے اس کی چیز فوراً اس کے حوالے کر دیا کرو، مگر اس نے میری تاکید نظرانداز کر دی اور تمہیں خواہ مخواہ یہاں آنے کی زحمت دی۔ پھر آپ نے گورنر کے نام تحریری حکم لکھا کہ اس شخص کی زمین اسے دلوائی جائے۔ اس کے بعد سائل سے دریافت فرمایا: میرے پاس آنے میں تمہارا کتنا خرچ ہوا؟ عرض کی:یا امیر المومنین!آپ مجھ سے سفر کا خرچ پوچھتے ہیں، میری جو زمین آپ نے واپس دلوائی ہے اس کی قیمت ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے! فرمایا:وہ تو تمہارا حق تھا جو تمہیں مل گیا یہ بتائو کہ سفر پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟ عرض کی: جی! معلوم نہیں۔ فرمایا:کچھ اندازہ تو ہو گا؟ عرض کی:’’یہی کوئی 60دِرہم۔‘‘ آپؓ نے حکم دیا کہ اس کا خرچ بیت المال سے ادا کیا جائے، جب وہ جانے لگا تو اسے آواز دے کر بلایا اور فرمایا:’’خُذْھٰذِہ خَمْسَۃُ دَرَاھِمَ مِنْ مَّالِیْ فَکُلْ بِھَا لَحْماً حَتّیٰ تَرْجِعَ اِلٰی اَھْلِکَ، یعنی لو!یہ پانچ درہم میرے ذاتی مال سے ہیں، گھر جانے تک ان کا گوشت لے کر کھاتے رہنا‘‘۔ خلیفہ بننے کے بعد آپؒ نے خاندان والوں سے میل جول کم کر دیا تو ان میں بعض لوگوں نے کہا: ’’آپ مُتکَبِر ہو گئے ہیں۔‘‘ فرمایا: میں پہلے محض ایک نوجوان تھا، خاندان کے لوگ بلا روک ٹوک میرے پاس آتے جاتے تھے لیکن خلیفہ بننے کے بعد میرے سامنے دو راستے تھے کہ یا تو میں پہلے کی طرح ان کے ساتھ زیادہ میل جول رکھوں اور حق کی مخالفت پر ان کو سزا دوں، یا ان سے ملنا جلنا کم کردوں تا کہ انہیں میرے بل بوتے پر حق کی مخالفت کی جرأت ہی نہ ہو، میں نے بہت سوچ سمجھ کر دوسرا راستہ اختیار کیا ہے، ورنہ تَکَبُر تو صرف خدا عزوجل کا حق ہے، میں اس کے متعلق اس سے کیونکر جنگ کر سکتا ہوں! ایک موقع پر عنبسہ بن سعید نے حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ سے کچھ مال دینے کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا: جو مال تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے اگر وہ حلال کا ہے تو تمہیں وہی کافی ہے اور اگر حرام کا ہے تو اس پر مزید حرام کا اضافہ نہ کرو۔ پھر پوچھا: اچھا یہ بتائو! کیا تم محتاج ہو؟ عرض کی:’’نہیں‘‘۔ کیا تمہارے ذمے قرض ہے؟ جواب اس مرتبہ بھی نفی میں تھا۔ فرمایا:پھر تم کیا چاہتے ہو؟ کیا میں مسلمانوں کا مال بلا ضرورت تمہیں دے ڈالوں اور حقداروں کو یونہی چھوڑ دوں! ہاں! اگر تم مقروض ہوتے تو میں تمہارا قرضہ ادا کر سکتا تھا، اگر محتاج ہوتے تو بقدرِ کفایت تمہیں دے سکتا تھا، لہٰذا جو مال تمہارے پاس موجود ہے اسی کو خرچ کرو،سب سے پہلے تو یہ دیکھ لو کہ یہ مال کہاں سے جمع کیا ہے اور اپنی خیر منائو، اس سے پہلے کہ تمہیں اس ذات کے سامنے پیش ہونا پڑے جس کے ہاں تمہارا کوئی معاہدہ ہے نہ کسی حیلے بہانے کی گنجائش! خلیفہ ہونے کے باوجود کبھی اپنے آپ کو عام مسلمانوں بلکہ کنیزوں اور غلاموں سے بھی بالاتر نہیں سمجھا۔ ایک بار کنیز آپؒ کو پنکھا جھل رہی تھی کہ اس کی آنکھ لگ گئی، آپؓ نے خود پنکھا لیا اور اس کو جھلنے لگے، جب کنیز کی آنکھ کھلی تو حیرت و خوف کے مارے اس کی چیخ نکل گئی مگر آپؓ نے فرمایا:تم بھی تو میری طرح ایک انسان ہو، تمہیں بھی اسی طرح گرمی لگتی ہے جس طرح مجھے، اس لیے میں نے سوچا کہ جس طرح تم نے مجھے پنکھا جھلا ہے میں بھی تمہیں پنکھا جھل دوں۔ ’’حِیَّرہ‘‘ کے یہودی،عیسائی اور مجوسی جن سے جِزیہ کی رقم وُصول ہوتی تھی، جب اسلام لائے تو گورنر عبدالحمید بن عبدالرحمن نے ان سے جزیہ وصول کرنا چاہا اور حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ سے اس کی اجازت طلب کی، انہوں نے لکھا کہ خدا نے محمد مصطفیﷺ کو اسلام کی دعوت کے لیے بھیجا تھا نہ کہ خراج جمع کرنے کے لیے، ان مذاہب کے لوگوں میں جو لوگ اسلام لائیں ان کے مال میں صرف صدقہ ہے جِزیہ نہیں۔ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا:شبہ کی صورت میں سزا میں حتی المقدور نرمی اختیار کرو، کیونکہ حاکم کی معاف کرنے میں خطا سزا دینے میں خطا سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان ربیعہ نے ایک سرکاری ضرورت کے تحت کسی کا گھوڑا بیگار(بلا اجرت محض سرکاری دبائو) میں پکڑ لیا اور اس پر سواری کی۔ آپ ؓسے پہلے یہ ایک معمولی بات ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس عہدے دار کو چالیس کوڑے لگوائے تا کہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓکے زمانے میں سرکاری ڈاک لانے والے کا یہ دستور تھا کہ جب وہ ڈاک لے کر چلتا تو راستہ میں جو لوگ اسے کوئی خط دیتے ان سے وصول کر لیتا، ایک بار وہ مصر جا رہا تھا کہ ’’ذی اصبح‘‘ کی آزاد کردہ’’فَرْتُونہ‘‘ نامی حبش کنیز نے اسے خط دیا جس میں خلیفہ کے نام تحریر تھا کہ اس کے احاطے کی دیواریں چھوٹی ہیں لوگ انہیں پھلانگ کر اندر آ جاتے ہیں اور اس کی مرغیاں چوری ہو جاتی ہیں۔ قاصد نے جب یہ خط لا کر امیر المومنین کو دیا تو آپؓ نے جواب میں تحریر فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، امیر المومنین! عمر بن عبدالعزیزؓ کی جانب سے ذی اصبح کی کنیز فرتونہ کے نام! تمہارا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ تمہارے مکان کی دیواریں نیچی ہیں اور لوگ انہیں پھلانگ کر تمہاری مرغیاں چرا لیتے ہیں، میں نے ایوب بن شرحبیل کو جو مصر میں نماز کے امام اور جنگ کے افسرِ اعلیٰ ہیں لکھ دیا ہے کہ وہ تمہارے مکان کی مرمت کرا کر اسے پوری طرح محفوظ کرا دیں۔ والسلام اور ایوب بن شرحبیل کو خط لکھا: ’’اللہ عزوجل کے بندے امیر المومنین عمر کی جانب سے ابن شرحبیل کے نام، امابعد! ذی اصبح کی کنیز’’فرتونہ‘‘ نے مجھے لکھا ہے کہ اس کے مکان کی دیواریں چھوٹی ہیں اور اس کی مرغیوں کی چوری ہو جاتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اس کا مکان محفوظ کر دیا جائے، جب میرا یہ خط ملے تو خود سوار ہو کر وہاں پہنچو اور اپنی نگرانی میں اس کا مکان مرمت کرائو، والسلام۔‘‘ جب ایوب بن شرحبیل کو خلیفہ کا یہ فرمان پہنچا تو انہوں نے فوراً اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مذکورہ علاقے کا رخ کیا وہاں پوچھتے پچھا تے ’’فرتونہ‘‘نامی کنیز کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بے چاری نہایت مسکین قسم کی بڑھیا ہے۔ ایوب بن شرحبیل نے اسے بتایا کہ امیر المومنینؓ نے تمہارے بارے میں مجھے یہ حکم نامہ بھیجا ہے، پھر اس کے مکان کی مرمت کروا دی۔