بعض بحثیں غیر محسوس طور پر شروع ہو جاتی ہیں اور ہم ان کو اہمیت نہیں دیتے‘مگر ان کا اثر ہماری سماجی زندگیوں پر بہت گہرا مرتب ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے کیا کہہ دیا کہ قیامت آ گئی خود حکومت پنجاب کو وضاحت کرنا پڑی۔قیامت اٹھ کھڑی ہوئی کہ یہ کیا طالبان کا کلچر لایا جا رہا ہے۔انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ چونکہ اب سکولوں میں قرآن پڑھانے کا پیریڈ بھی لازمی کر دیا گیا ہے‘اس لئے اس پیریڈ کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس میں طلبہ کے لئے ٹوپی یا دو پٹہ ضروری کر دیا جائے۔ چاہے تو نجی سکول اسے اپنی یونیفارم کا حصہ بنا لیں کہ عین وقت پر طلبہ حیلہ بہانہ نہ کر سکیں۔بس طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔صرف سوشل میڈیا پر نہیں‘ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر باقاعدہ مباحثے کرائے گئے کہ یہ کیا طالبان کا کلچر لایا جا رہا ہے۔گویا دوپٹہ اوڑھنا یا ٹوپی پہننا طالبان کا کلچر ہے اور اس سے ترقی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔یہ کس کا ایجنڈہ ہے‘ہم نے کبھی غور کیا۔ دوپٹے کی بحث ایک زمانے میں ہمارے میں پہلے بھی شروع ہوئی تھی جب اس وقت ملک کے واحد ٹی وی چینل جو سرکاری ہی تھا ‘ نے اپنی اینکرز کے لئے ڈریس کوڈ متعارف کراتے ہوئے انہیں سر پر دو پٹہ رکھنے کی تلقین کی۔ملک کی ایک معروف اینکر مہتاب راشدی نے کہا کہ بھئی یہ کیا پابندی ہے‘میں تو اس پر عمل نہیں کروں گی۔اس وقت ملک میں اس مقام و مرتبہ کی بس دو ایک اینکر تھیں‘بس قیامت آ گئی۔پھر آہستہ آہستہ ہم نے دیکھا کہ دوپٹہ ہمارے الیکٹرانک چینل سے غائب ہو گیا۔کسی نے توجہ بھی نہ دی۔پہلے تو خواتین کے لئے کوٹ پہننا لازمی ہوا‘پھر یہ ختم ہوا۔شوق تھا پورا ہو گیا یا مقصد تھا جو پا لیا گیا۔ ہم اس وقت کی بحثوں کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں مگر کیا یہ غلط نہیں کہ یہ ایک ایجنڈے کے طور پر کی جاتی ہیں۔اب یہی مسئلہ ہے کہ قرآن پڑھتے وقت دو پٹہ اوڑھ لینا چاہیے تو یہ کہاں کی طالبنائزیشن ہے۔یا پھر آپ ہماری ہر روایت اور ہر شعائر کو طالبان سے جوڑنا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ یہ بحث جوڑ دی جاتی ہے کہ تعلیم کی اصل ترجیح تو میرٹ کو فروغ دینا ہے۔شاید ان کے خیال میں دوپٹہ اوڑھنے سے میرٹ کی قربانی ہو جائے گی۔ اس میرٹ کا حال بھی سن لیجیے۔میں لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی میں طلبہ کو پڑھایا کرتا تھا۔ایک دن میں نے پوچھ لیا کہ آپ نے اس یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا تو اکثر نے بتایا کہ یہ شہر کی لبرل یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔کسی نے اس لبرل ہونے میں اس کا درجہ تیسرا بتایا۔میں حیران ہوا کہ یہ داخلے کا کون سا معیار ہے۔اب کئی سال بعد مرے ایک بھانجے نے اپنی یونیورسٹی کے معیار کی تعریف کرتے ہوئے مجھے اس بات سے آگاہ کیا کہ جو یونیورسٹی زیادہ مشہور ہے وہاں ذرا زیادہ ہی آزادی ہے۔پوچھا اس آزادی کا کیا مطلب ہے۔کہنے لگا سگریٹ تو خیر عام سی بات ہے اور مشروبات بھی چلتے ہیں۔میں نے اس پر تو ظاہر نہیں کیا‘مگر مجھے ایک دھچکا سا لگا۔مجھے کئی سال پرانا کراچی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔وہاں کے ایک انسٹی ٹیوٹ کا بڑا چرچا تھا اور اب بھی ہے۔اس کے سربراہ ایک بڑے اچھے ماہر تعلیم تھے۔سنا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سمجھا رکھا ہے بلکہ ان پر پابندی لگا رکھی ہے کہ وہ نہ چائے مانگیں گے نہ پئیں گے بلکہ اس کے بجائے کافی یا پیپسی اپنائیں گے‘کیونکہ ایگزیکٹو لوگوں کا یہی وطیرہ ہونا چاہیے۔بظاہر یہ طلبہ کو اس کلچر کی تربیت دیتا تھا۔جس سے ان کا ایک ایگزیکٹو کے طور پر اچھا تاثر پیدا ہو۔ہماری کارپوریٹ دنیا میں شاید ان دنوں کافی یا کوک پیپسی پینا زیادہ مہذب یا ایکسپرٹ اور باخبر ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہو۔ایک لائف سٹائل تھا جسے سکھایا جاتا تھا۔اب بات یہاں تک آ پہنچی ہے۔ بتا میں یہ رہا ہوں کہ ہم کیسے آہستہ آہستہ بدلتے جا رہے ہیں۔یہ سب ہم میرٹ کے نام پر کر رہے ہیں یا ایسے وقت کا ساتھ دینے کے مترادف سمجھتے ہیں۔اب صورت یہ آ گئی ہے کہ جب کوئی دوپٹے کی بات کرتا ہے تو ہم بھڑک اٹھتے ہیں اور شور مچانے لگتے ہیں۔ایک بارمیں نے عرض کیا تھا کہ اسی مزاج کے ردعمل میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے ہم طالبان کا طعنہ دیتے ہیں۔ایک زمانے میں شور اٹھا کہ ہال روڈ کے دکانداروں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اپنی ساری ویڈیو ضائع کر دیں وگرنہ ان کی دکانیں جلا دی جائیں گی۔ظاہر ہے اس پر شور اٹھ کھڑا ہوا۔یہ کسی نے نہیں بتایا کہ یہ کس کا ردعمل تھا۔وہ کون سی ویڈیو ہیں جب چھپ چھپا کر ہماری نئی نسل کو فراہم کی جاتی ہیں اور یہ مذموم کاروبار کب سے جاری ہے۔کوئی روکنے والا ہی نہیں۔اب بھی کبھی کبھی خبر آتی ہے کہ ہماری درسگاہوں میں نشہ آور آئس بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ خاص کر طالبات میں۔یہ بات ہمارے ایک وفاقی وزیر نے بھی کہیں کہہ دی۔ہم دوپٹے کی بات کر رہے ہیں‘یہاں تو لگتا ہے یہاں تو معاملہ دور نکلتا دکھائی دیتا ہے۔مجھے لگتا ہے ایک ایجنڈے کے تحت ایک خاص لائف سٹائل کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔کوئی بتائے کیا اس سے ہم اچھے سائنسدان پیدا کرنے لگیں گے۔ ویسے ہماری درسگاہوں میں کبھی ٹوپی کا چلن نہ تھا۔علی گڑھ کا مجھے یاد نہیں۔دوپٹہ البتہ ہمارے روایتی پہناوے کا حصہ تھا۔ویسے یہ کوئی بحث ہے۔اگر کسی کو یاد ہو کہ جب سکولوں میں قرآن پڑھانے کو لازمی قرار دیا گیا تو اس وقت بھی شور اٹھا تھا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔سچ پوچھئے ہم نے نماز پڑھنا اور یہ سب ابتدائی باتیں اپنے سکولوں ہی میں پڑھی ہیں۔وہ نظام تعلیم جسے لوگ پیدا کر رہا تھا۔نیا نظام تعلیم تو شاید اس سے بہت پیچھے ہے۔صرف بزنس مینجمنٹ یا کمپیوٹر سیکھنے کا نام تعلیم نہیں ہے۔یہ کاریگری ہے۔اب اگر میں مثال دوں گا تو برا لگے گا کہ جیسے گزشتہ دور ہمارے جاگیردار معاشرے میں موچی‘نائی‘ درزی کو کمی کمین کہہ کر ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔آج کے معاشرے میں یہ سب لوگ اہم ہیں۔اگر میں پیشوں کے سپر سٹار کا نام گنوائوں گا تو برا لگے گا۔بس یوں سمجھ لیجیے ہنر سیکھنے میں عظمت ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی آڑ میں ہم اپنے معاشرے کو برا سمجھنے لگیں۔مرے ذہن میں تو اور کھری کھری باتیں آ رہی ہیں۔مگر فی الحال اتنا ہی۔لکھوں گا تو وہ بھی مگر فی الحال نہیں۔بحث دوسری طرف نکل جائے گی۔ویسے میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مختلف الیکٹرانک میڈیا کے اداروں پر جو بحثیں چھیڑی جاتی ہیں ان کا تجزیہ ہونا چاہیے کہ کون کیا کیا بحث کر رہا ہے یا کرا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا ہے۔