تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی جماعت کی حکومت بننے پر بڑے پیمانے پر نجکاری کا عندیہ دیا ہے۔ اسد عمر نے معاشی اصلاحات کے متعلق ایک انٹرویو میں کہا کہ حکومت سرکاری شعبے میں کام کرنے والی دوسوکمپنیوں کی نجکاری کرے گی۔ انہوں نے ممکنہ اصلاحات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کی حالت بہت خراب ہے۔ آئی ایم ایف سمیت کوئی آپشن نہیں چھوڑا جا سکتا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے قرضہ لینے کی تجویز زیر غور ہونے کا بتایا۔ اسد عمر نے نجکاری کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کارپوریشنوں کو نجی شعبے کے زیر انتظام ویلتھ فنڈ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس فنڈ کا مقصد کارپوریشنوں کے نقصانات اور قرضوں کو کم کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی شعبے میں حکومت کا کام سہولت کاری کا ہے۔ اصل کام نجی شعبے نے کرنا ہے۔ پاکستان میں نجکاری کا عمل بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں شروع کیا گیا۔ چونکہ پیپلزپارٹی اداروں کو قومیانے کے حوالے سے معروف تھی، اس لیے نجکاری کے فیصلے کو پاکستان کی نئی معاشی شکل کے طور پر دیکھا گیا۔ میاں نواز شریف نے اپنی تینوں حکومتوں میں نجکاری جاری رکھی۔ نجکاری کے عمل میں بد انتظامی اور بدعنوانی نے بلاشک عوام کا اعتماد مجروح کیا۔ عوامی سطح پر یہ تاثر بہت مستحکم ہوا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور سرکاری افسران بیش قیمت عوامی اثاثوں کو کوڑیوں کے مول فروخت کر رہے ہیں۔ اسی تاثر کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کی اگیا تو عوام کا شدید ردعمل ظاہر ہوا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ(ن) نے سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کی لیکن 2013ء کے بعد جب ن لیگ کی حکومت بنی تو ان دونوں بڑے اداروں کی نجکاری کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ کسی ملک کی معیشت دو شعبوں پر انحصار کرتی ہے۔ ایک پبلک سیکٹر اور دوسرا نجی شعبہ، عام طور پر سرکاری سطح پر پبلک سیکٹر کمپنیوں اور صنعتوں کے معاملات حکومت چلاتی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر معاشی ماہرین امریکہ اور یورپ کے پڑھے ہیں۔ اس لیے ان کے تصورات اور تجاویز کا پس منظر بھی امریکہ اور یورپ کا ماحول رہا ہے۔ ان کے مطالعے اور جائزے میں پاکستان کے زمینی حقائق دکھائی نہیں دیتے۔ نجکاری خالصتاً ایک ایسا تصور ہے جو سرمایہ داری نظام سے متعلق ہے۔ سرمایہ داری نظام وسائل کی مساوی تقسیم کی بجائے سرمائے کو وسائل اور اختیارات میں زیادہ حصہ دینے کی حمایت کرتا ہے۔ اسی لیے امریکہ میں جب نجکاری کے اصول طے کیے گئے تو فیصلہ ہوا کہ امریکی حکومت یو ایس پوسٹل سروس سرکاری سکولوں اور یونیورسٹی کے نظام اور نیشنل پارک سروس کو اپنی تحویل میں رکھے گی۔ پاکستان میں ریلوے جیسے عظیم الشان شعبے کو بدعنوانی کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ ہر حکومت نے ریلوے کو بحران سے نکالنے کے نام پر ایسے منصوبے شروع کیے جو ہر بار ناکام ثابت ہوئے۔ گزشتہ 30برس کے دوران غالباً ریلوے کے کچھ روٹس اور شعبوں کی نجکاری کی دو سے زائد کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ تازہ مثال لاہور سے کراچی چلائی جانے والی بزنس ٹرین ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل کی بحالی کے لیے کوششیں ناکام ثابت ہو چکی ہیں۔ سٹیل ملز کا معاملہ اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ پاکستان میں اس کاروبار پر حکمرانی کرنے والا شریف خاندان اپنی تین حکومتوں میں سٹیل ملز کو منافع بخش نہ بنا سکا۔ اسی طرح سابق حکومت میں کئی نجی فضائی کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی نظر آتی ہیں مگر قومی فضائی کمپنی بار بار کے بیل آئوٹ پیکج ملنے کے باوجود خسارے میں جا رہی ہے۔ نجکاری کے حامی حلقوں کا خیال ہے کہ نجی کمپنیاں جب سرکاری اداروں کو تحویل میں لیتی ہیں تو منافع کی غرض سے نتیجہ خیز پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں۔ افسر شاہی کی وجہ سے سرکاری انتظامیہ سستی اور بدعنوانی کا شکار ہو جاتی ہے جبکہ نجی شعبہ اپنی مستعدی سے کارکردگی کو لگا زنگ اتار دیتا ہے۔ تا ہم پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے تصور کے حامی حلقوں کا خیال ہے کہ ہر شعبے کی نجکاری نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی رائے میں بنیادی ضروریات سے متعلقہ شعبے سرکاری تحویل میں رہنا ضروری ہیں انہیں منڈی کی بے رحم طاقتوں کے حوالے نہیں کیا جانا چاہئے۔ صاف پانی،بجلی اور تعلیم کو مغربی سرمایہ داری نظام بنیادی ضروریات میں شمار کرتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کاروباری و پیداواری اداروں سے متعلق قانون سازی پر توجہ نہیں دی گئی۔ ہر حکومت نے اپنی ترجیحات کا تعین کسی قابل بھروسہ تحقیق اور جائزے کی بجائے لیڈر شپ کی فہم و فراست کے مطابق کیا۔ مکمل نجکاری کے نقصان کا اندازہ کرتے ہوئے دنیا کے کچھ ممالک نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا تصور اپنایا۔ اس تصور کے تحت انفراسٹرکچر اور قانون سازی کی ذمہ داری ریاست اٹھاتی ہے جبکہ نجی شعبہ نئی سرمایہ کاری اور انتظامی مستعدی سے اپنے زیر انتظام منصوبوں کو منافع بخش بناتا ہے۔ اس کے لیے سرکاری اداروں کے حصص کا ایک بڑا حصہ فروخت کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کئی بار کارپوریٹ پرائیویٹائزیشن ہوتی ہے۔ عموماً کارپوریٹ پرائیویٹائزیشن دو کمپنیوں کے ادغام یا کسی کمپنی کے حصص کی فروخت کے بعد سامنے آتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے جب بھی نجکاری کا منصوبہ پیش کیا اس سے لوگوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہوئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے نجکاری کے عمل میں کئی چیلنج درپیش ہوں گے۔ حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح کسی شعبے کی مکمل نجکاری منڈی کی قوتوں کی اجارہ داری کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔ جس معاشرے میں ریاست نے خود کو مکمل طور پر کسی معاملے سے الگ کیا وہاں انتشار اور بدحالی پیدا ہوئی۔ چند عشرے قبل ارجنٹائن نے آئی ایم ایف کے مشورے پر اپنے ہاں پانی کی فراہمی کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا۔ اس کا ردعمل بہت شدید ہوا اور ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ پاکستان کی صورت حال کا ادراک رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بنیادی ضروریات کے دائرے میں آنے والے شعبوں کی نجکاری ضروری ہو تو انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصول پر چلایا جا سکتا ہے۔ یوں ریاست اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے میں اپنا کردار کسی نہ کسی صورت میں شامل رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلی کمیونیکیشن کی نجکاری اور اس کا انتظام اتصالات کے حوالے کرنے کی مثال موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دھوکے باز پاکستان کے مفادات کے ساتھ کس طرح کھیل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نجکاری کے دوران اپنے وزراء اور سرکاری افسران کی نگرانی کرے گی تاکہ کمشن اور کک بیکس کے لالچ میں وہ ملک کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔