کب تک سیاسی پارٹیاں اس بے ثمر پارلیمانی نظام کے ساتھ گھسٹی چلی جائیں گی،ادبار کا جو خاتمہ نہیں کر سکتا۔ نہایت تیزی کے ساتھ سول ادارے جس کے طفیل دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں سید منور حسن مرحوم 2009ء میں جماعتِ اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو فاروق گیلانی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سرکاری افسر تھے۔ براہِ راست کوئی تعلق سیاست سے نہیں تھا لیکن بلا کے تجزیہ کار۔ یہی اخبارات پڑھتے، یہی چینل دیکھتے لیکن اکثر اخبار نویسوں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ درست نتائج اخذ کرتے۔ شاید اس لیے بھی کہ ایک سیاست دان کے گھر میں پروان چڑھے تھے۔ اپنی افتادِ طبع اور علمی تربیت کے طفیل تعصبات سے اوپر اٹھ گئے تھے۔ ہمیشہ وہ دن یاد رہے گا، صبح سویرے ٹیلی فون پرجب انہوں نے کہا: جنرل محمد ضیاء الحق کے رخصت ہونے کا وقت آپہنچا۔ اس وقت سیاست اور صحافت میں تاثر یہ نہ تھا۔ضیاء الحق افواجِ پاکستان کے سربراہ تھے اور آٹھویں ترمیم کے اختیارات رکھنے والے صدر بھی۔ ’’آپ کی دلیل کیا ہے؟‘‘ سیاسی حرکیات اور معلومات نہیں، ضیاء الحق کی بدلی ہوئی بدن بولی اورتیوروں سے یہ نتیجہ انہوں نے اخذ کیا تھا۔’’غیر ضروری اعتماد کے مظاہرے میں کل شب فوجی حکمران نے تکبر کی حدود کو چھو لیا‘‘ ہاں!یہ اس کا مزاج نہ تھا۔ وہ تو ایک حلیم الطبع آدمی تھا۔ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔چند دن پہلے ضیاء الحق نے وزیرِ اعظم محمد خاں جونیجو کو برطرف کیا تھا۔ اب وہ یک و تنہا تھے۔ معزول تو شاید اب بھی نہ کیے جا سکتے، نا مقبول یقینا تھے۔ گنتی کے چند اخبار نویسوں کے سوا، جو ان کے دستر خوان سے فیض یاب ہوا کرتے، کوئی ان کا مقدمہ لڑنے والا نہ تھا۔ افغانستان کے طفیل معمول سے کہیں زیادہ سرگرم سی آئی اے اس خلا کو بھانپ گئی، جو سویلین وزیرِ اعظم اورفوجی صدر کے تصادم سے پھوٹا تھا۔ ناراض او رنالاں تو امریکہ بہادر پہلے ہی تھا کہ کابل کے باب میں انکل سام کی ترجیحات قبول کرنے پر وہ آمادہ نہ تھے، جب کہ جونیجو مان گئے تھے۔ اب وہ اور بھی بگڑے۔ اب انہوں نے اس شخص کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا، افغان سرزمین کے ساتھ ساتھ جو کشمیر میں جہاد کے بیج بو چکا تھا۔ ایٹمی پروگرام اور افغانستان میں روسی ہزیمت کے بعد جس کا اعتماد بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ جو پاکستان،ا یران اور مستقبل کے آزاد افغانستان پر مشتمل طاقت کا ایک نیا مرکز تشکیل دینے کا خواب دیکھتا تھا۔ بھارت کے ممتاز ترین فوجی مبصر پراوین سوامی آج بھی آئی ایس آئی کو دنیا کی سب سے کارگر انٹیلی جنس ایجنسی قرار دیتے ہیں۔ تب تو یقینا تھی۔ سینئر صدر بش نے ضیاء الحق کے آخری ایام میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایک اجلاس میں آئی ایس آئی کے پر کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ فلپائن سے امریکہ تک، دنیا کے ہر اس گوشے میں وہ سرگرم تھی۔ انتہا یہ ہے کہ اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں واشنگٹن سے موصول ہونے والے بعض پیغامات کا سراغ بھی لگا لیا جاتا۔ جونیجو کی برطرفی نے امریکیوں کو چونکا دیا۔ وہ اس نیک طینت لیکن سادہ لوح آدمی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جن عوامل نے سی آئی اے کو جنرل کے قتل پر آمادہ کیا، ان میں سے شاید ایک یہ بھی تھا کہ محمد خاں جونیجو کی برطرفی پر کوئی ہنگامہ نہ اٹھا۔ حامد ناصر چٹھہ نے بھاگ دوڑ کی اور ایک آدھ جلسہ بھی کر ڈالا۔ پابندِ سلاسل پریس نے دبے دبے الفاظ میں احتجاج بھی کیامگر بے نتیجہ۔اپنے خواب میں شاید ضیاء الحق سچے تھے۔ شاید مشرقی پاکستان کا قرض اتارنے پر تلے تھے لیکن ارضی حقائق سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ فروری 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے دہانے پر ایک آزاد حکمران واشنگٹن کو گوارا نہ تھا۔ ضیاء الحق کے قتل میں فیصلہ کن کردار اسرائیل سے لائی گئی زہریلی گیس کی ڈبیا نے ادا کیا یا آم کی پیٹیوں میں رکھے گئے دھماکہ خیز مواد نے،یہ سوالات اہم ہیں۔ ان سے زیادہ کہیں اہم مگر یہ کہ قاتل کون تھا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ، جس نے فائدہ اٹھایا۔ وہ، جس نے لیاقت علی خاں پہ فائرنگ کا اہتمام کیا تھا، ریاست ہائے متحدہ! آج بھی جو پاکستانی سیاست کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مٹھی مگر اب اتنی بڑی نہیں رہی۔ اب وہ واحد عالمی طاقت نہیں۔ چین اس کے مد مقابل کھڑا ہے اور اس شان سے کھڑا ہے کہ امریکی صدر کو چینی قیادت سے گفتگو کے لیے درخواست کرنا پڑتی ہے۔ خطے میں اس کا سب سے بڑا حلیف بھارت دلدل بنتا جا رہا ہے۔ اس کا پرانا حریف یعنی ماسکو اس دلدل سے دلی کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔تاریخ کا سبق مگر یہ ہے کہ قومیں جب دلدل میں اتر جاتی ہیں، جب بالاتری کا خبط ان پہ سوار ہو جاتا ہے تو خال ہی بربادی سے وہ بچ پاتی ہیں۔اکثر شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہیں۔ سید منور حسن والی بات بیچ میں رہ گئی۔ مرحوم فاروق گیلانی نے ان سے کہا: نہایت تیزی سے جماعتِ اسلامی خاکسار تحریک بنتی جا رہی ہے۔ 2008ء تک مولانا فضل الرحمٰن جنرل مشرف کے حلیف تھے۔ منصورہ کو ایک لق و دق بیاباں میں چھوڑ کر فرار ہوگئے، جس میں راہ تلاش کرنا مشکل تھا۔ اپنے مزاج کے برعکس منور حسن مرحوم نے فاروق گیلانی کے دلائل توجہ سے سنے مگر اتفاق نہ کیا۔ تب سے لے کر اب تک جماعتِ اسلامی ڈھلوان پر ہے۔ ایک خاص مکتبِ فکر سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی آرزو میں، دلاور مگر یک رخے قاضی حسین احمد پہلے ہی اسے کمزور کر چکے تھے۔لاہور سے اسلام آباد پہنچ کر اس ملاقات کی روداد فاروق گیلانی نے اس نیا ز مند کو سنائی۔ وہ خاموش رہا، اس لیے کہ وہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کر سکا تھا۔زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ اتفاق کرنا پڑا۔ ایک جماعتِ اسلامی ہی کیا، نون لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں زوال آشنا ہیں۔ ارضی حقائق سے بے خبر اور یکسر لا تعلق۔ خواب و خیال کی جنتوں کے اسیر لیڈر۔ کب تک یہ تماشا باقی رہے گا؟ کب تک سیاسی پارٹیاں اس بے ثمر پارلیمانی نظام کے ساتھ گھسٹی چلی جائیں گی،ادبار کا جو خاتمہ نہیں کر سکتا۔ نہایت تیزی کے ساتھ سول ادارے جس کے طفیل دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں