8مارچ کو بین الاقوامی خواتین ڈے منایا گیا۔ مختلف مذاکروں‘ سیمینار اور ٹی وی پروگراموں میں خواتین نے اپنے حقوق کی بات کی ایک انسان کی حیثیت سے عورت یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ معاشرے میں اسے سب سے پہلے تحفظ کا احساس ملنا چاہیے۔میرے خیال میں معاشی صورتحال بھی سب سے زیادہ ہے۔خواتین کو متاثر کرتی ہے۔ایک محدود بجٹ میں اسے امور خانہ داری چلاتی پڑتی ہے۔باورچی خانے سے لے کر بچوں کی تعلیم‘ نگہداشت اور ان کی بنیادی ضرورتو کا خیال رکھنا بھی گھر میں عورت ہی کا کردار اور مینجمنٹ کا ہے۔پھر شہروں میں وہ خواتین جو بڑی تعداد میں ملازمت کرتی ہیں، انہیں بھی مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جائیداد اور وارثت میں خواتین کا حصہ دینے کا معاملہ بھی خواتین کے بڑے حق میں سے ایک ہے۔ایک سیمینار میں خواتین نے بڑی پُرجوش تقریریں کیں وہ سب سے زیادہ اس بات پر زور دے رہی تھیں کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے ساتھ سلوک اور ان کے حقوق کی بابت جو احکامات دیے اس پر تو عمل کرنے میں کوئی عذر پیش نہیں کرنا چاہیے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ خواتین کی جانب سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعروں سے اجتناب کیا گیا اور اپنے حقوق کی بات کی گئی۔میرے لئے یہ بڑی حیران کن حقیقت ہے کہ کراچی کی عدالتوں میں صرف خلع اور طلاق کے ہزاروں کیس زیر سماعت ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرتی اور خاندانی روایات و اقدار بتدریج زوال پذیر ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ مردوں کی برتری کے معاشرے میں آج عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو حضرت ابوبکرؓ سے لے کر حضرت علی ؓ کے ادوار میں حاصل تھا لیکن اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اس کو جو پروٹوکول یہاں دیا جاتا ہے وہ شاید یورپ کی عورت کو کئی صدیوں کے بعد بھی نصیب نہ ہو۔ بے شمار سماجی مسائل کے باوجود عمومی طور پر لوگ پرائی عورت کو دیکھ کر نظریں نیچے کر لیتے ہیں بسوں میں ان کے لئے نشست خالی کر دیتے ہیں ان کی موجودگی میں سگریٹ نہیں پیتے ان سے عزت و احترام سے مخاطب ہوتے ہیں آج بھی لفظ ’’بھائی‘‘ سن کر لوگوں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں آج بھی ’’عورت‘‘ سے زیادتی پر لوگ باہر آ جاتے ہیں آج بھی لوگ گھ میں بیٹی پیدا ہونے پر شراب چھوڑ دیتے ہیں۔ آج بھی لوگ بیوی کو طلاق دینے اور بہن بیٹی سے تلخ گفتگو کرنے والے مرد کو خوشی سے اپنے پاس نہیں بیٹھنے دیتے آج بھی بوڑھی مائوں، دادیوں اور نانیوں کو بیشتر خاندانوں میں ’’نیوکلس ‘‘کی حیثیت حاصل ہے۔ہاں آج بھی تمامتر اخلاقی تنزلی کے باوجود ہمارے قدامت پسند معاشرے میں عورت اتنی محفوظ ہے جتنی یورپ کے جنگلی معاشروں میں کبھی نہیں تھی۔ میرا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ ہماری خواتین اس آزادی کے نعرے بلند نہیں کرنے چاہیئں جیسے وہ یورپ جیسی آزادی طلب کر رہی ہوں۔جہاں عورت ‘عورت نہیں انڈسٹری ہے۔ مرد وراثت میں حصہ داری‘ ٹیکس اور اخراجات کے ڈر سے پوری زندگی کی قربت کے بعد بھی عورت کو بیوی کا درجہ نہیں دیتے جہاں ایک ہی عورت کے تین بچوں کے رنگ ناک اور نقشے آپس میں نہیں ملتے ۔جہاں عورت بیٹی نہیں بیوی اور ماں نہیں صرف ’’پارٹنر‘‘ ہے۔عورت کے حقوق پر ضرور بات ہونی چاہیے منطق دلیل اور حقائق کے ساتھ۔ لیکن پاکستانی عورت کی مظلومیت ثابت کرنے کے لئے امریکہ یورپ آسٹریلیا اور مشرق بعید کی رپورٹوں کے حوالے نہ دیے جائیں۔ ذرا غور کیجیے جو ملک غربت میں نچلی ترین سطح تک پہنچ رہا ہوں جہاں کم و بیش نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو اور ہم خواتین کا تقابل ’’مس یورپ‘‘ سے کرنا درست نہیں۔ہماری خواتین کو تقابلی جائزہ لینا ہو تو انہیں فاطمہؓ بنت محمد ؐ کی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے ان کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے۔ کسی مفکر اسلام سے حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے مقام نے ایک عرصے تک مجھے پریشان رکھا میں نے سوچا کہ فاطمہ ؓ محمدؐ کی بیٹی ہیں لیکن پھر سوچا کہ آپ کا اس کے علاوہ بھی ایک مقام ہے وہ حضرت علیؓ کی بیوی ہیں پھر سوچا حضرت فاطمہ حضرت امام حسینؓ کی والدہ ہیں ۔پھر سوچا کہ اس کے علاوہ بھی آپ کا ایک مقام ہے۔فاطمہؓ خاتون جنت بھی ہیں ،پھر سوچا کہ ان کا ایک مقام اور بھی ہے جب تھک گیا تو بات یہیں آ کر ختم ہوئی فاطمہ از فاطمہؓ۔ میں بھی جب مقام فاطمہؓ کے بارے میں سوچتا ہوں۔تو مجھے حیات اقبال کا وہ واقعہ یادآ جاتا ہے جب شاعر مشرق نے اپنے استاد میر حسن کا نام شمس العلماء کے خطاب کے لئے پیش کیا۔کمیٹی نے پوچھا ان کی تصنیف کیا ہے علامہ اقبال نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا میں ہوں ان کی تصنیف‘ اگر کوئی اس کی روشن میں مقام فاطمہؓ کی جستجو کریں تو آپ کو کربلا کے میدان میں کھڑے حسینؓ حضرت فاطمہؓ کے مقام کا تعین کرتے نظر آئیں گے جن کے دن دِن آج تک چیخ چیخ کر کہہ رہے ’’ہاں میں ہوں فاطمہؓ کی تصنیف‘‘ ہو ں جو جب بچی تھیں تو نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان کے زخم دھوتی تھیں جو لڑکی تھیں تو اپنے دور کے سب سے بڑے شجاع کو زرہ بکتر پہناتی تھیں اورجو خاتون تھیں تو تاریخ کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کرتی تھیں اور جنہوں نے زندگی سے وقت سے معاشرے سے کچھ نہیں لیا اسے صرف دیا ہی دیا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب سرور دو عالمﷺؐ گھر سے نکلنے لگتے تو آپ رسول اللہ ؐ کی انگلی پکڑ کر ساتھ چلنے کی ضد فرماتیں۔آپؐ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیر کر فرماتے ’’بیٹا یہ خواہش کیوں؟‘‘ وہ تو بھری آنکھوں سے محبوب خداؐ کو دیکھ کر کہتیں ’’بابا جان مجھے خطرہ ہے کہیں اکیلا جان کر کُفار آپؐ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔آپ ہر طرح سے رسول خداؐ کی خدمت کر تیںجب آپؐ گھر واپس لوٹتے تو حضرت فاطمہؓ آپؐ کا سر دھلاتیں آپ کا دستار مبارک کھول کر بالوں میں تیل لگاتیں کنگھی کرتیں اور اپنی بھیگی ہوئی آواز میں کہتیں ’’بابا جان فکر نہ کریں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے‘‘۔