جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو خبریں آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو گرفتار کر لیا گیاہے، غربت کے مسائل بہت زیادہ ہیں، اقتدار کی جنگ اور سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ، اللہ خیر کرے۔ غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے مسائل پر مسلسل لکھ رہا ہوں ،بعض اوقات ہماری باتوں کو مقتدر لوگ پراپیگنڈہ کا نام دے دیتے ہیں ، کیا اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی پراپیگنڈہ ہے؟ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کے تین صوبوں کے دیہی اضلاع میں 86 لاکھ افراد کو خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مون سون کے بدترین سیلاب نے ملک کو متاثر کیا تھا۔ متاثرہ افراد میںسندھ کے 9 اضلاع کے 52 لاکھ افراد، خیبرپختونخوا کے 7 اضلاع کے 18 لاکھ جبکہ بلوچستان کے 12 اضلاع کے 16 لاکھ افراد شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی جانب سے خوراک کے بحران پر رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں بھوک کی شدت میں 25 فیصد سے 43 فیصد تک اضافہ تمام صوبوں میں ایک نمایاں طور پر بگڑتی ہوئی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر بحران میں تجزیہ شدہ آبادی کا حصہ 19 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا، جب کہ ہنگامی حالت کے علاقوں کا تناسب 6 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد ہو گیا۔ رپورٹ میں پاکستان کو 2017 ء کے بعد سے ایک بڑے غذائی بحران کے طور پر بیان کیا گیا ہے جب اس کی تجزیہ کردہ آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ تیسرے درجے کے بحران یا اس سے اوپر تھا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ سال کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود وسیب نے گندم کی بمپر کراپ دی جس سے ملکی معیشت کو کم و بیش بیس ارب ڈالر کا فائدہ ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے قبل ہی مارچ اور اپریل میں ہیٹ ویوز، کھاد کی قلت اور آبپاشی کے پانی کی قلت زیادہ تر تجزیہ کردہ اضلاع میںربیع کی گندم کی فصل کی پیداوار کو متاثر کرتی تھی اور مویشیوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی تھی، اس کے بعد سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی تھی جس نے تقریباً 3 کروڑ افراد کی زندگیوں اور معاش میں خلل ڈالا۔ سیلاب سے تقریباً 44 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا، جس سے چاول، مکئی، جوار کی 2022 ء کی پیداواری پیشی گوئیاں بھی کم رہیں اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً 8 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے۔ زراعت کے شعبے میں ہوئے مجموعی نقصان کا تخمینہ تقریباً 13 ارب ڈالر لگایا گیا جس میں بنیادی طور پر فصلیں (82 فیصد) اس کے بعد لائیوسٹاک (17 فیصد) شامل ہیں۔ اس قدر خراب حالات کے باوجود یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ربیع کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے، اب حکومت فصل خریف یعنی کپاس کی پیداوار بڑھانا چاہتی ہے مگر وسیب کی نہریں بند ہیں ، جب پانی نہیں ہوگا تو فصل کیسے کاشت ہو سکے گی، صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے وسیب کے علاقے حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتے جس کے باعث ملک و قوم کا نقصان ہوتا آ رہا ہے مسئلے کا یہی ایک حل ہے کہ وسیب پر مشتمل علیحدہ صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہم مہنگائی اور غریبوں کی مشکلات کے حوالے سے بات کر رہے تھے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کر کے سارا بوجھ صارفین اور غریب طبقات پر ڈال دیا گیا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، پاکستان کے معاشی مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیںمگر حکومت کو پرواہ نہیں ، اقتدار کی رسی کشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، غربت اور بیروزگاری میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے، غریبوں کی چیخ و پکار پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ پورے ملک میں ایک مسئلہ پر احتجاج ہوا کہ گیس میٹر کے چارجز چالیس روپے سے بڑھا کر پانچ سو روپے کر دئیے گئے مگر ابھی تک حکومت نے وہ فیصلہ واپس نہیں لیا۔ صارفین کا کہنا ہے کہ میٹر ہماری ملکیت ہیں، میٹرکی قیمت پہلے وصول کر لی جاتی ہے اس بناء پر تو چالیس روپے کرایے کا بھی جواز نہیں بنتا، بجائے اسے ختم کرنے کے اس میں کئی سوگنا اضافہ کر دیا گیاجو نہایت ہی ظلم اور زیادتی ہے ۔ جو بھی حکمران آتا ہے وہ اپنے سابقین پر ملبہ ڈالتا ہے ، عمران خان آیا تو وہ نواز شریف پر ملبہ ڈالتا رہا اور موجودہ حکمران عمران خان پر ملبہ ڈال رہے ہیں، لیکن غریب عوام کا کیا قصور ہے، وہ کہاں جائیں؟ مہنگائی اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 4مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں مشترکہ آمدنی والے گروپ کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کی جانے والی ہفتہ وار افراط زر سال بہ سال غیر معمولی طور پر 48.35 فیصد تک پہنچ گئی، اس سے قبل ختم ہونے والے ہفتے میں سال بہ سال قلیل مدتی افراط زر کی سب سے زیادہ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو 47.23 فیصد تھی۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے جو اب تک واحد ذریعہ استعمال کیا ہے وہ شرح سود میں مسلسل اضافہ ہے، جو بڑھ کر 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ سطح ہے۔ حکومت مالیاتی خسارے کو پورا کرنے ،آمدنی پیدا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ اور زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے سخت اقدامات کر چکی ہے تاہم حکومت نے مہنگائی اور کفایت شعاری کے تمام اقدامات کرنے کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ حاصل نہیں کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے، زیادہ تر اشیا پر سیلز ٹیکس اور 800 سے زائد درآمدی کھانے اور غیر کھانے کے آئٹمز پر 25 فیصد سیلز ٹیکس سے اشیائے خورد و نوش کی خوردہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہوچکا ہے ۔