ہارون الرشید نے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا’’گدھے صرف اسی صورت میں دوڑ جیت سکتے ہیں کہ گھوڑوں کو مقابلے سے باہر کر دیا جائے‘‘ ہم نے کہا پشاور اور حویلیاں کی دو تحصیلوں میں دوڑ کا میدان سجایا‘کمہاروں نے مضبوط تن و توش کے جسیم گدھے جو دوڑ میں بڑے ماہر و مشاق تھے بہترین سواروں کے ساتھ میدان میں اتارے۔ خان نے اپنے اصطبل کے لاغر ترین گھوڑے اس دوڑ کے لئے بھیج دیے‘ اسے بہت روکا اور سمجھایا گیا کہ آپ کے گھوڑے بہت لاغر اور کمزور ہیں،ہرگز جیت نہیں سکیں گے مگر اس نے کسی کی نہ سنی بلکہ سنی ان سنی کر دی۔پانچ اگست دوڑ کا دن مقرر تھا‘خان کو مقررہ دن بندی خانے میں قید کر دیا گیا‘ گدھے کے مالکان نے سن رکھا تھا کہ گھوڑے اپنی طاقت پر نہیں مالک کی عزت کے لئے جان ہلکان کرتے ہیں مالک ہو گا نہ گھوڑے عزت کا مسئلہ بنائیں گے لیکن گھوڑا جتنا بھی ناتواں ٹھہرے گدھے سے ہار مانے یہ ہو ہی نہیں سکتا اور ہوا بھی نہیں‘ کھسیانی بلیاں کھمبا نوچ رہی ہیں۔ ہر موسم میں دوستی کو سرسبز اور شاداب رکھنے والے ہمارے دوست حفیظ اللہ نیازی نے فرینڈز آف مشتاق چودھری کے نام سے ایک ’’وٹس ایپ‘‘ گروپ بنا رکھا ہے اس گروپ کے تقریباً سارے ہی ممبر ’’ستر برس‘‘ کے آرپار ہیں،دوستی کی مدت کم از کم پچاس برس پر محیط ہے‘سب ایک دوسرے سے ملتے بھی رہتے ہیں، معلومات کا تبادلہ تازہ ترین خبریں طنز کے نشتر‘ مزاج کی چاشنی‘کئی رنگ‘ متعدد ذائقے‘ جاٹ‘ نیازی چشمک‘ کپتان‘ شریف معرکے بھی اس میدان میں برپا رہتے ہیں‘سارے ممبران پاکستان کی پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے تن و توش بھاری اور حرکت آہستہ ہونے لگی ہے ایک گروپ قدسیہ ممتاز نے بنا رکھا ہے۔یہ نئی نسل کا نمائندہ گروپ ہے‘ نئی طرز ‘ نئے رجحانات‘ نئی ایجادات نئے خیالات اور نتائج کی تیز رفتاری اور بروقت فراہمی جو یہاں ملتی وہ کہیں اور دستیاب نہیں‘ یہ گروپ کپتان کے ہر اول میں سے ہے۔کپتان بھی اگرچہ ہماری ’’جنریشن‘‘ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی سپاہ کی اکثریت نئی اور تازہ دم جنریشن سے ہے‘ ہلکے پھلکے ہتھیاروں سے لیس یہ تیزی سے حرکت میں آتے‘مار دھاڑ کر کے یہ جا وہ جا۔حریف کے بوڑھے اور سست وجود ہانپتے رہ جاتے ہیں۔ دونوں گروپوں کا تھوڑا سا فرق اور نتائج کی ایک جھلک آپ کے سامنے رکھتا ہے۔خیال رہے کپتان کے حریف شریفین کے سارے حلیف جسے ہم پی ڈی ایم کہتے ہیں ان کی سہولت کار اسٹیبلشمنٹ کا ہر شعبہ پاکستان کی اولین جنریشن سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ نئی نسل کی چستی‘ پھرتی ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے ہتھیاروں کی دسترس اور مہارت میں نئی نسل کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ محمد علی کلے‘ بھلے ہزار سال کا بہترین کھلاڑی صحیح اگر آج لیاری کے باکسر سے بھی مقابلہ پڑ جائے تو کیا کریگا؟ وہی جو نواز شریف نے کپتان کے مقابلے میں کیا؟چار ہزار میل دور چھپ کر ’’مندے‘‘بولنا۔بزرگوں کے گروپ میں عمران خاں کی گرفتاری پر پوسٹ لگائی گئی احتجاجی مظاہرہ۔خان صاحب کی گرفتاری کیخلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ جلوس آج ٹوئٹر گیٹ سے نکل کر واٹس ایپ بازار سے گزرتا ہوا حویلی فیس بک پر اختتام پذیر ہو گا۔انسٹا گرام چوک میں شرکا پر گل پاشی کی جائے گی یو ٹیوب ماتھی دھنیں بجائے گا۔جلوس میں کئی ملین فالورز شرکت کریں گے‘ شرکا گھر سے لنگر کھا کر آئیں۔ ایک پوسٹ سہیل وڑائچ کی تصویر کے ساتھ جس میں لکھا گیا ہے کہ ’’خان صاحب کے ٹک ٹاک پر 10ملین فالورز اور سڑکوں پر ایک بھی نہیں۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ یہ اور اس طرح کے تبصرے پڑھ کر یار لوگ ابھی بغلیں جھانک رہے تھے‘ جواب کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا جھانکا‘ تو خیال ’’قدسیہ ممتاز‘‘ گروپ کی طرف چلا گیا کہ نوجوان نسل کیا سوچتی ہے‘ جس نے حال ہی میں 9مئی بھگتا اور ثابت قدم رہے، پرانی نہیں پاکستان کی پہلی نسل(جنریشن) کا طنز اور طعنے آپ پڑھ چکے‘ اب ذرا نئی نوجوان‘ تازہ دم نسل کے خیالات جانیے‘ قدسیہ ممتاز نے لکھا‘ سڑکوں پر احتجاج کمزور لوگ کرتے ہیں‘ مصر میں صدر مرسی کے لئے لاکھوں لوگ نکلے تھے کیا نتیجہ ہوا؟ عوام نے اس سے پہلے خاں کو گرفتاری سے بچانے کے لئے تیس گھنٹے تک پولیس‘ رینجر‘ ایف سی اور کمانڈوز تک کی شیلنگ‘ لاٹھی چارج‘ پیلٹ گن جھیلی‘ فائرنگ کا سامنا کیا جانیں دیں‘9مئی کو 25نوجوانوں نے انہی کے ہاتھوں شہادت قبول کی کیا نتیجہ نکلا؟ ہم جنریشن Xسے Zتک کے بہترین دماغوں پر مشتمل جوان ہیں، ہم ایسے روائتی طریقوں پر چل کر اپنی انرجی اور جانیں کیوں ضائع کریں۔ہم وہ کریں گے جس کے بارے میں عمران ریاض نے کہا تھا کہ انہوں نے غلط جنریشن سے ٹکر لی ہے اور وہ ہوتا نظر آئے گا اور وہ جو ہوتا ہوا نظر آئے کوئی وعدہ فردا نہیں تھا‘ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے بالکل نقد و نقد‘ نئی نسل نے کیا جواب دیا؟ آپ نے دیکھا کسی تاخیر کے بغیر کپتان دوپہر گرفتار ہو کر پہلے اسلام آباد پھر اٹک جیل لے جایا گیا‘ ان کا خال تھا وہ گرفتار ہو جائے تو مِتھ ٹوٹ جائے گی، لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ لیں گے‘ قیدی ابھی اپنی کوٹھڑی تک نہیں پہنچا تھا ‘ جب پشاور کی تحصیل متھرا اور حویلیاں کے حلقے سے نتائج آنے لگے‘دو تحصیلوں میں چیئرمین کا انتخاب‘ جب پرویز خٹک اور وزیر اعلیٰ محمود کی حکومت تھی تو ان کی بہترین قائدانہ صلاحیت نے تحریک انصاف کو چودہ (14) ہزار ووٹوں سے شکست ملی‘ آج عمران خاں کا نام رہ گیا تو دونوں سیٹیں تحریک انصاف کے حصہ میں آئی‘ چودہ ہزار اور چوتھے نمبر پر شکست خوردہ پارٹی سات ہزار کی کثرت سے جیت کر عمران خاں کی گرفتاری کا جواب دے رہی تھی۔ بزرگوں کی محفل میں ایک بزرگ نے جھجھکتے ‘ کچھ شرمائے ہوئے کہا‘ جب بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو جیالوں نے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی تھی‘ میرا کا مشورہ دینا تھا آگے آپ کی مرضی؟ نوجوانوں کی مجلس میں اس آپشن کا ذکر کیا تو ان کا جواب تھا کہ جن صاحب نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا وہ مدت سے مسلم لیگ نون کا حصہ ہیں وہ ان کی خدمات سے استفادہ کر سکتے تھے‘ خود سوزی انتہائے مایوسی اور بے چارگی کی علامت ہے‘ بزدلوں اور کم ہمتوں کا شیوہ ہم نے برسر میدان مقابلہ کیا دو درجن سے زیادہ نوجوان شہید ہوئے ہیں‘ خود سوزی سے زیادہ موثر خود کش حملہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم پرامن اور جدید طریقے اختیار کر کے انہیں پسپا ہی نہیں پوری شکست دیں گے‘ ملا عمر کے بقول گھڑی ان کے پاس ہے تو وقت ہمارے ہاتھ میں‘ ہر گزرتا دن انہیں انجام کے قریب تر لے آیا ہے اور مت بھولئے کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ دو برس ہیں انتخابات کو جتنا بھی موخر کر سکیں ہر ایک برس میں پچاس لاکھ نوجوان ووٹر لسٹ میں شامل ہوتے ہیں اور تقریباً پندرہ لاکھ بزرگ طبعی عمر پوری کر کے پرلوگ سدھار جاتے ہیں‘ دو برس میں جب ان کی ہڈیاں چٹخ جائیں اور دماغ مائوف ہونگے تب ہمارے ووٹ کی طاقت میں ایک کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہو گا‘ گھبرانے کی اور گھبرائے رہنے کی باری جن کی وہ اپنی فکر کریں ’’ہاں یہ بھی نہ بھولئے کہ آپ نے تاحیات نااہل مفرور مجرم کی طرف چپکے چپکے چھپ چھپا کے 5اگست کی رات ایک تحفہ روانہ کیا تھا‘ برطانیہ کے ہوائی اڈے پر ہمارے نوجوانوں نے اس کا استقبال کیا تو وہ بھیگے چوہے کی طرح کسی اندھیری بِل کی تلاش میں ابھی تک لاپتہ ہے۔ مہرِ تاباں سے جا کے کہہ دو وہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھے میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں