غالب ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشتیم

کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدﷺاست

مرزا اسد اللہ خاں غالب

 

اْن کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیئے ہیں

جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں

 

جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ اْن کی آنکھیں

جلتے بجھا دیئے ہیں ، روتے ہنسادیئے ہیں

 

اک دل ہمارا کیا ہے آزار اْس کا کتنا

تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلادیئے ہیں

 

اْنکے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو

جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں

 

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہونگے

اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں

 

اسرا میں گزرے جس دَم بیڑے پہ قدسیوں کے

ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیئے ہیں

 

آنے دو یا ڈبو دو، اب تو تمہاری جانب

کشتی تمہِیں پہ چھوڑی ، لنگر اٹھا دیئے ہیں

 

دولہا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکو

مشکل میں ہیں براتی پُرخار بادیے ہیں

 

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا

رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

 

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا

دریا بہادیئے ہیں ، در ، بے بہا دیئے ہیں

 

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلَّم

جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہیں

( امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)

٭…٭…٭

خاکِ تیرہ کو نور تجھ سے ملا

جلوہء بامِ طور تجھ سے ملا

 

سخت بے کیف تھی فضائے حیات

زندگی کا سرور تجھ سے ملا

 

راز پنہاں تھا راز کون ومکاں

اس خفا کو ظہور تجھ سے ملا

 

چشمِ روشن ہوئی بصیرت کی

دل کو ذوقِ حضور تجھ سے ملا

 

نبضِ انسانیت فسردہ تھی

زندگی کا شعور تجھ سے ملا

 

شمعِ ہستی بجھی بجھی سی تھی

شعلۂ ناصبور تجھ سے ملا

(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

٭…٭…٭

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

 

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں

نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا

 

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے

چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا

 

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم

مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

 

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی

میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

 

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

 

تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے

مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا

 

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

 

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں

صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

 

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں

جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا

 

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں

ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

 

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو

نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا

 

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے

رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

 

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی

اب جو تاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

 

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا

(احمد ندیم قاسمی)

٭…٭…٭

پسندِ شوق ہے آب و ہوا مدینے کی

عجب بہار ہے صلِ علیٰ مدینے کی 

 

بامتیاز و بہ تخصیص خواب گاہِ رسول

قلوبِ اہلِ وِلا میں ہے جا مدینے کی 

 

صعوبتوں میں بھی اِک راحتِ سفر کی ہے شان

جو یاد رہتی ہے صبح و مسا مدینے کی 

 

علاجِ علّتِ عصیاں کی فکر کیا ہو اُسے

جسے نصیب ہو خاکِ شفا مدینے کی 

 

سکونِ خاطرِ حسرت بنی وہ رابغ میں

خبر جو لائی تھی بادِ صبا مدینے کی 

(حسرت موہانی)

٭…٭…٭

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روز محشر عذر ہائے من پذیر

گرحسابم را تو بینی نا گزیر

از نگاہ مصطفےﷺ پنہاں بگیر

علامہ اقبال ؒ

 

تو نے ہر شخص کی تقدیر میں عزت لکھی

آخری خطبے کی صورت میں وصیت لکھی

 

تو نے کچلے ہوئے لوگوں کا شرف لوٹایا

عدل کے ساتھ ہی احسان کی دولت لکھی

 

سرحدِ رنگ بہ عنوانِ اخوت ڈھائی

ورقِ دہر پہ ہر سطر محبت لکھی

 

تو نے ہر ذرے کو سورج سے ہم آہنگ کیا

تو نے ہر قطرے میں اِک بحر کی وسعت لکھی

 

حسنِ آخر نے کیا حسن کو آخر تجھ پر

آخری رُوپ دیا، آخری سورت لکھی

 

تیرے اوصاف فقط تجھ سے بیاں ہوتے ہیں

نعت خود لکھی، بہ پیرایہء سیرت لکھی

 

سلسلے بند کیے، مہر لگا دی تو نے

صفحۂ ارض پہ اِک آخری اْمت لکھی

 

خالد احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد

تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی

(خالد احمد)

٭…٭…٭

میں محمد سے جو منسوب ہوا خوب ہوا

ان کا دیوانہ و مجذوب ہوا خوب ہوا

 

آنسووں سے مجھے جنت کی ہوا آتی ہے

میرا دل دیدہِ یعقوب ہوا خوب ہوا

 

اس کی آوازِ قدم آئی زمانے لے کر

لمحے لمحے نے کہا خوب ہوا خوب ہوا

 

اس نے اللہ کو اللہ نے اس کو چاہا

کبھی طالب کبھی مطلوب ہوا خوب ہوا

 

حق تعالٰی کی اطاعت ہے اطاعت اس کی

میں جو محبوب کا محبوب ہوا خوب ہوا

 

میرے ہر سانس کا مقصود درود اور سلام

ان کے دربار کا مندوب ہوا خوب ہوا

 

منفرد میری غزل، نعت اچھوتی میری

جو مظفر مرا اسلوب ہوا خوب ہوا

(مظفر وارثی رحمۃ اللہ علیہ)

٭…٭…٭

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ،وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے

امام احمد رضا خان بریلوی ؒ

 

وہ ایک پھول کھلا تھا جو ریگ زاروں میں 

اسی کے حسن سے سب رنگ ہیں بہاروں میں

 

وہ ایک شمع کہ روشن ہوئی تھی غاروں میں

وہ چاند بن کے ہوئی منعکس ستاروں میں

 

کہوں ببانگِ دہل بے جھجھک ہزاروں میں

حبیبِ رب ہے محمد خدا کے پیاروں میں

 

کلام آپ کا جامع، فصیح و پُر تاثیر

ادب شناس گنیں اس کو شاہ پاروں میں

 

اس آفتابِ ہدیٰ سے اگر نہ ہوں ضو گیر

نہ چاند میں ہو کوئی روشنی نہ تاروں میں

 

زہے نصیب کہ وہ سب ہیں زندہ و جاوید

شمار جن کا ہوا اس کے جاں نثاروں میں

 

جمال و حسن کے پہلو سے ہے وہ گل اندام

دمِ جہاد مگر وہ ہے شہ سواروں میں

 

مرے نصیب میں لکھا ہے ساغرِ کوثر

بفضلِ رب ہوں میں اس کے ثنا نگاروں میں

 

نظر جو دل متلاطم ہے اس کی یادوں میں

سرشکِ اشک ہیں کچھ آنکھ کے کناروں میں

(محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی)

 ٭…٭…٭

تری نگاہ سے ذرے بھی مہر وماہ بنے

گدائے بے سروساماں جہاں پناہ بنے

 

رہ مدینہ میںقدسی بھی ہیں جبیں فرسا

یہ آرزو ہے مری جاں بھی خاکِ راہ بنے

 

زمانہ وجد کناں اب بھی ان کے طوف میں ہے

جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے

 

حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی

حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے

 

ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو

ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے

 

جہاں جہاں سے وہ گذرے جہاں جہاں ٹھہرے

وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے

 

کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے

کہ ہجر میں مرے جذبات اشک و آہ بنے

 

وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہر ہو

وہ نور دے جو فروغِ دل و نگاہ بنے

( حافظ مظہر الدین مظہررحمۃ اللہ علیہ)

٭…٭…٭