مغربی جمہوریت کہ جس شکل میں ہم اس سے واقف ہیں، اس کی آبیاری لبرل ازم کے فلسفے نے کی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں روس کے اندر سوشلسٹ انقلاب کے اثرات بھی مغربی یورپ تک پہنچنے لگے تھے۔سرد جنگ کے عشروں کا آغاز ہواتومغربی ممالک نے امریکہ کی سربراہی میں خود کو آزاد دنیا جبکہ سوشلزم کو جبر کا نظام قرار دیتے ہوئے محکوم قوموں کی آزادی کا بیانیہ ترتیب دیا۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ اس پراپیگنڈے کے پسِ پشت اعلیٰ انسانی و جمہوری اقدار نہیں بلکہ معاشی اور تزویراتی اہداف کا رفرما تھے۔سرد جنگ کے نتیجے میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو پاکستان کہ جہاں معاملات ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں تھے، امریکی کیمپ میں چلا گیا۔ اسی دور میں جبکہ یورپ کے محاذ پر نیٹو کے نام سے سوویت یونین کے خلاف امریکی قیادت میں ایک فوجی اتحاد قائم ہوا تو تاریخی ’سلک روٹ‘ پر سوشلزم کے پھیلائو کو روکنے کیلئے خطے میں جہادی نظریات کوفروغ دیئے جانے کا آغازہوا۔ہمارے اندرونی محاذ پر بھی مذہبی اور اسٹیبلشمنٹ کی ہمدرد سیاسی جماعتوں پر مشتمل دائیں، جبکہ سوشلسٹ نظریات کے پیروکار بائیں بازو کے بیچ کش مکش شروع ہوگئی۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت دائیں بازو والے بوجہ اشتراکیوں اور قوم پرستوں کی ملک سے وفاداری کوشک کی نظر سے دیکھتے تو دوسری طرف اشتراکی امریکی طاغوت کی حمایت کرنے والوں کو ’امریکی پٹھو ‘ قرار دیتے ۔اشتراکی دانشوروں نے مغربی استعماریت سے آزادی، مساواتِ انسانی اور خلقِ خدا کے راج کو لے کر ایک سنہری بیانیہ تخلیق کیا جسے شاعروں نے گیتوں اور نظموںمیں ڈھالا۔ان گیتوں اور نظموں کو آمروں کے خلاف جلسے جلوسوں میں تب سے آج تک گایا جاتا ہے۔ روسی فوجوں نے دریائے آمو کو پار کیا توپاکستان ایک بار پھر تیسرے مارشل لاء کی گرفت میں تھا۔ برسوں جہادی نظریات کی جس فصل کی آبیاری کی گئی تھی، اس کے کاٹنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ پاکستانی سرخے اور قوم پرست جماعتیں فطری طور پر کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت اور فوجی آمرکو امریکی اتحادی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ ایک طویل جنگ کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو نئی صدی کے ظہور کے ساتھ ہی نئی صف بندیاں ہونے لگیں۔ تہذیبوں کے ٹکرائو کے نتیجے میںپرانے اتحادی دشمن جبکہ دشمن حلیف بن گئے۔ چوتھے فوجی حکمران کی قیادت میں پاکستان ایک بار پھر امریکی حلیف بن کر کل کے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف برسرِ پیکار ہوگیا۔ اگرچہ برسوں پہلے سوویت یونین کے انہدام کے بعدامریکہ چین کو اپنا حریف قرار دیتے ہوئے خطے میں بھارت کو اپنا حلیف قرار دے چکا تھا، تاہم دونوں اتحادیوں کے مابین تعلقاتِ کار میں دراڑیں اس وقت پیدا ہونے لگیںجب امریکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی کونیم دلانہ قرار دے کر ہدفِ تنقید بنانے لگا۔ سال 2011ء کو دونوں ملکوں کے مابین’ بداعتمادی کے عروج‘ کا سال قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جب امریکی عہدیداروں نے اپنی سابقہ اتحادی پاکستانی اسٹیبلشمٹ کو’ڈیپ سٹیٹ‘ کا خطاب دیتے ہوئے خطے میں بد امنی کے لئے اس کی’ متوازی پالیسیوں ‘کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کیا ۔اسی کے نتیجے میں پاکستان کی داخلی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت رکھنے والے سیاسی عناصر کی آبیاری کے لئے انویسٹمنٹ کا آغاز ہوا۔ سابقہ سرخے انقلابی اشتراکیت کو چھوڑ کر امریکی استعمار کا راتب کھانے اور جمہوریت پسندلبرلز کہلانے لگے ۔راتوں رات سول سوسائٹی وجود میں آگئی۔ حال ہی میں ظہور پذیر ہونے والے الیکٹرانک میڈیا میں اسٹیبلشمنٹ مخالف مہرے برساتی کھمبیوں کی طرح اُگنے لگے۔ قبائلی علاقوں سے نوجوانوں کوچن چن کر مغربی دارالحکومتوں میں ’جدید تعلیم‘ کے لئے بھیجے جانے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ انہی برسوں میںقوم کو نقشوںاور چارٹوں کی مدد سے بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیرونی فنڈنگ کے ذریعے برپا مہم’ ففتھ جنریشن جنگ ‘ کے مقامی کرداروں کے تانے بانے ایک اہم سیاسی جماعت کے رہنمائوں سے جاملتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم کا مرکزی نقطہ یہ تھا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خطے میں ہمسائیوں کے ساتھ ’پرامن‘تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جبکہ طالبان کے باب میں دوغلی پالیسی کے لئے بھی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ ملک کے اندر اور باہر اس کے کارندے سویلین بالادستی کا راگ الاپنے لگے۔ دوسری جانب بھارت میں پاکستان اور چین کو جمہوریت اورانسانی حقوق کے باب میں بدنام کرنے کے لئے فیک نیوزنیٹ ورک کا کاروبار عروج پر تھا۔مغربی اسٹیبلشمنٹ، افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت،بھارت میں ہندو انتہا پسندحکمران ٹولہ اور خود ملک کے اندر انصاف کے سیکٹر، میڈیا، اورسول سوسائٹی سمیت زندگی کے ہر شعبے میں موجود’جمہوریت پسند‘ جہاں ایک طرف تو نواز شریف جیسوں کو جمہوریت کا چیمپئن بناکر پیش کرنے لگے، وہیں اس دور میں اسٹیبلشمنٹ کے حلیف عمران خان کے درپے ہو گئے۔ سال2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت روزِ اول سے ہی ان تمام عالمی اور مقامی عناصر کا مشترکہ ہدف بن گئی جو گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خطے میں اپنے عزائم کے راستے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو رکا وٹ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف معاندانہ مہم برپا کئے ہوئے تھے۔ہمیں بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف یہ مہم اعلیٰ انسانی اور جمہوری اقتدار کی سر بلندی کے لئے ہے۔ دنیا بھر میں جان لاک جیسے مفکروں کے افکار سے پھوٹنے والی لبرلز ازم نے ارتقاء کے کئی مراحل طے کئے۔ تاہم دنیا بھرکے لبرلز میںجوا قدار مشترک رہیں وہ ان کااسٹیبلشمنٹ مخالف ہونا اور انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر یقین رکھنا تھا۔چنانچہ ہم جیسے عامی برسوں عشروں پاکستانی لبرلز کی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت اور فوجی آمریت کی مخالفت، انسانی حقوق کے پرچار اور ہمسائیوں سے دوستی کو بھی انسان دوست آفاقی اصولوں پر استوار سمجھتے رہے اور تما م عمرکسی حد تک ان سے مرعوب بھی رہے ۔ سیاسی جماعتوں اور شخصیات سے وابستہ افراد سے تو کسی کو کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیئے۔ تاہم عشروںانسانی مساوات ،تاجداروں کے تخت الٹائے جانے اور خلقِ خدا کے راج کے خواب بیچنے والے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں،مزاحمتی صحافیوں، نامور وکیلوں اور آئین و قانون کی سربلندی کا ڈھول پیٹنے والے منصفوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ دوغلا پن ہماری سرشت میں شامل ہے۔ آزادی اظہار رائے کے چیمپیئن وہ چڑچڑے صحافی جو اپنی پیٹھوں پرجنرل ضیاء کے کوڑوں کے نشان دکھا کر داد پاتے نہیں تھکتے تھے آج نا جانے کس کونے میں چھپے بیٹھے ہیں؟ انسانی حقوق کے علمبردار لبرلزجو پختونوں اور بلوچوں کے علاوہ عورتوں اور اقلیتوں کیساتھ زیادتیوں کے لئے بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کی پیٹھ پر تازیانے برساتے تھے، سویلین بالا دستی کے لئے جن کی تانیں مغربی دارالحکومتوں میں بیٹھے حسین حقانیوں سے ہمہ وقت ہم آہنگ رہتی تھیں، آج اپنے ساز توڑے کہا ںپڑے ہیں؟کہا جا سکتا ہے کہ سرد جنگ کے مغربی بیانئے اورپاکستانی سرخوں کی انقلابیت کی طرح ہمارے ہاں کے جمہوریت پسند لبرلز کی اعلیٰ انسانی اورجمہوری اقدار کے لئے جدوجہد بھی مفاد پرستی اور ملمع کاری کا ہی ایک نمونہ تھی۔