یہ رواں سال ماہِ فروری کے اختتامی دِن تھے،جب ملک میںکورونا وائرس کے پہلے مریض کا انکشاف ہوا۔اب لگ بھگ اِن پچپن دِنوں میں مصدقہ مریضوں کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ایک سوسینتیس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ہم اس عرصہ میںکورونا سے کس طرح لڑے؟نیزاب بھی یہ لڑائی جارہی ہے؟ان سوالوں کے جوابات بہت ہی پریشان کن ہیں۔ ہم اس عرصہ میںکورونا سے کس طرح لڑے ؟ اس سوال کی وضاحت اگلے سوال کا جواب بھی مہیا کر دیتی ہے۔ ریاست (تمام ریاستی ادارے)حکومت (وفاقی و صوبائی)اور عوام کی سطح پرکورونا سے جنگ کی گئی۔مگر ہم تینوں سطح پر وائرس کے سامنے کمزور پڑگئے اور آخرِ کار ،ہتھیار ڈال دیے۔ہتھیار ڈالنے میں پہل وفاقی حکومت نے کی۔دوسرے نمبر پر عوام نے ہتھیار ڈالے ۔صوبائی حکومتوں نے ماسوا ،سندھ حکومت کے پوری طرح ہتھیار اُٹھایا ہی نہیں تھا۔تاہم ہتھیار پھینکنے کا تیسرا نمبر صوبائی حکومتوں کا آتا ہے۔یہ کہنے میں تامّل نہیں ہونا چاہیے کہ سندھ حکومت کو ہتھیار ڈالنے پر وفاقی حکومت ،عوام اور کسی حد تک اُن کی گورننس نے مجبور کیا۔ہم اس وقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ عوام کا کیا ہوگا؟ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام میں سے اُس مختصر گروہ کا کیا ہوگا،جوکورونا سے سچ مچ لڑرہا تھا ؟ سب سے پہلے وفاقی حکومت کی طرف آتے ہیں۔ وفاقی حکومت اس وباکے خلاف ایک پالیسی بنانے میں ناکام رہی۔ وفاقی حکومت کی ابتدائی کوششیں غیر ضروری اور غیر متعلقہ لوگوں سے ملاقاتیں (مثال کے طور پر صحافیوں) میٹنگز اور اِدھر اُدھر کی باتوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ابھی لاک ڈائون کی باتیں ہورہی تھیں کہ وفاقی حکومت نے شور مچانا شروع کردیا کہ لاک ڈائون کے نتیجے میں غریب عوام کا کیا ہوگا؟کیا ملک کا وزیرِ اعظم اور صاحبِ ثروت وزیر یہ جانتے ہیں کہ غربت کیا ہوتی ہے اور غریب کس کو کہتے ہیں؟وفاقی حکومت کا یہ کہنا کہ ’’غریب عوام کا کیا ہوگا؟‘‘کرونا سے نمٹنے کی پالیسی قراردی جاسکتی ہے۔وفاقی حکومتکورونا سے نمٹنے اور غریب عوام کو بھوک سے مرنے کے بیچ فرق کو نہ سمجھ سکی،اِ س کے نزدیک غریب کو راشن مہیا کرنا ،کرونا سے بچانا ہے۔وفاقی حکومت ملک کے بائیس کروڑ عوام کو چھوڑ کر غربت سے متاثر ہونے والے لگ بھگ تین کروڑ کو بچانے پر لگ گئی۔کرونا وبا ء بائیس کروڑ لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے جبکہ غربت تین کروڑ لوگوں کو ۔وفاقی حکومت نے تین کروڑ کی ذمہ دار لی۔مگر اس ذمہ داری کو نبھانا کیسے ہے؟اِس کامنصوبہ کلیئر نہیں اور سیاست زَدہ بھی ہے۔جن اداروں یا صوبائی حکومتوں نیکورونا وبا سے لوگوں کو محفوظ کرنے کی ٹھانی ،وفاقی حکومت کے کچھ وزرا ء اور نمائندے اُن کے سامنے رکاو ٹ ڈالنے اور مساعی کو مشکوک کرنے میدان میں اُتر پڑے۔اس کی مثالیں فیصل ووڈااور علی زیدی کی دی جاسکتی ہیں۔اگرچہ ایسے وزراء کی اپنی کارکردگی دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد سے اقتدار میں آنے سے اب تک مشکوک اور سوالیہ نشان چلی آرہی ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کو لاک ڈائون کے نتیجے میں متاثر ہونے والے غریب طبقہ کو بچانے کا گُر چندہ مانگنے میں نظر آیا۔وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں چندہ جمع کرنے کا سب سے زیادہ تجربہ ہے۔اس طرح وفاقی حکومت کو جس کام میں زیادہ تجربہ تھا،اُسی کا بیڑہ اُٹھایا۔یہاں وفاقی حکومت نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ کسی بڑے بحران کو قابو پانے میں انتظامی طاقت کے ساتھ ساتھ بحران سے نمٹنے کا ادراک نہیں رکھتی۔ صوبائی حکومتوں میں سے پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان کے ترجمانوں سے جبکورونا وائرس کی بابت استفسار کیا جائے تو وہ اعدادوشمار بتانا شروع کردیتے ہیں کہ اتنے مریض ہیں ،اتنے مر چکے ہیں وغیرہ۔اِن کے نزدیککورونا سے نمٹنا محض یہی ہے۔سندھ حکومت کاکورونا وباسے جنگ کرنے اور اس کو شکست دینے کا ویژن بہت کلیئر ہے۔مُرتضیٰ وہاب ،جو ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ،جب اُن سے کورونا کی بابت پوچھا جائے تو وہ جنگی حکمتِ عملی کی بات کرتے ہیں ،نہ کہ یاسمین راشد ،اجمل وزیر اور لیاقت شاہوانی کی طرح رَٹے ہوئے اعدادوشمار سنانا شروع کردیتے ہیں۔یہ حکومتکورونا سے جنگ نہیں ہارے گی یہ اپنی بُری گورننس انتظامی اُمور کو بروئے کار لانے میں ناکامی اور وفاقی حکومت کی حوصلہ شکنی سے شکست کھائے گی اور کسی حد تک کھا چکی ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہ جنگ لڑنے میں اس حد تک سنجیدگی دکھائی کہ ماسک لگالیے اور سینی ٹائزر خرید لیے۔فروری کے آخری اور مارچ کے ابتدائی دِنوں میں لوگوںکی طرف سے کسی حد تک احتیاط برتی گئی۔ دُکانداروں نے دُکانوں کے سامنے فاصلے پر نشان لگائے ، خریدار اُن نشانوں میں کھڑے ہو کر سماجی فاصلہ اختیار کرتے تھے،اس کے علاوہ کائونٹر کے سامنے رسیاں باندھی گئیں۔مگر اب فاصلوں کے یہ نشان مٹ چکے ہیں،رسیاں ٹوٹ چکی ہیں۔سڑکیں ٹریفک کے بوجھ کے نیچے ہانپتی رہتی ہیں اور مارکیٹ ہجوم سے پُررہتی ہیں۔مساجد کو جانے والی رکاوٹیں برائے نام رہ گئی ہیں۔گذشتہ جمعہ کی نماز ،بند مارکیٹوں،خالی سڑکوں پر بھی اداکی گئی۔نماز کی ادائیگی سے کسی حکومت اور ادارے نے نہیں روکا،صرف احتیاط برتنے کا کہا گیا ہے۔مگر ہمارے زیادہ تر نمازی خواہ مخواہ کی ضد پر اُترے ہوئے ہیں۔وہ یہ لاجک دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ حکومت نے بعض کام کی جگہیں اوپن کردی ہیں تو مساجد میں جانے سے کیوں روکا جارہا ہے؟ایسے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نماز گھر میں بھی ادا کی جاسکتی ہے جبکہ بعض مزدوریاں گھرمیں بیٹھ کر نہیں ہوسکتیں۔ اس وقت عملی طورپر حکومت اور عوام کی جانب سے کورونا سے جنگ لڑنے میں ہاتھ کھڑے کیے جاچکے ہیں۔ہر سطح پر جنگ لڑنے کی صلاحیت کا فقدان پایا گیا ہے۔اس کا نتیجہ خدانخواستہ یہ نکلے گا کہ یہ وبا کئی ماہ تک ہمارے ہاتھوں کی تلاش میںآزادانہ پھرتی رہے گی اور اس کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔اس وقت عوام کا وہ مختصر گروہ جوکورونا وبا سے جنگ لڑنے میں سنجیدہ تھا،سب سے زیادہ تشویش میں پایا جارہا ہے اور اُس کا اعتماد اپنی حکومت پر مکمل طورپر اُٹھ چکا ہے۔