عمران خاں کی جانب سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش اس بات کا اظہار ضرور تھا کہ وہ اپنے بے لچک رویے اور اپنی بات منوانے کی ضد سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہیں۔انہوں نے سوسائٹی کے مختلف طبقات اور خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو عمران خاں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود یہ سمجھنے میں حق بجانب دکھائی دے رہے ہیں کہ عمران خاں کی ضد نے ملک میں سیاسی بھونچال برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن شہباز شریف کے ساتھ گفت و شنید اور ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کی حکمت عملی ترتیب دینے کی تجویز کو نامنظور کر کے لگتا ہے کہ اس فلم میں کوئی انہیں ہیرو سمجھے یا ولن وہ فلم کے ہر منظر میں سسپنس بھی رکھنا چاہتے ہیں اور تھرل بھی۔ ممکن ہے عمران خاں کے حمایتی یہ کہیں کہ انہوں نے 4مارچ کو جو منصوبہ پیش کیا ہے کہ ملک کو کس طرح اس بحرانی کیفیت سے نکالا جائے اس کے بھی دو پہلو ہیں سیاسی طور پر عمران خاں کے سینے میں اب یہ خواہش انگڑائی لے رہی ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو پھر موجودہ کئی جماعتوں پر مشتمل حکومت کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں زیادہ دیر رہنا مشکل ہو جائے گا۔یہ بات بھی درست ہے کہ عمران خاں کو اقتدار سے الگ کرنے کی کوشش کسی عوامی تحریک کا نتیجہ نہیں تھا۔بلکہ یہ موجودہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں اور ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوانی کے سبب ممکن ہوئی۔ یہ بات ابھی تک عمران خاں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ تاش کی گیم کی طرح ہاتھ میں اچھے پتے ہونے کے باوجود وہ ہار گئے۔شطرنج کے گیم کی طرح وہ یہ اندازہ بھی نہ کر سکے کہ ان کی جانب سے اگلی تین چار چالوں کے جواب میں ان کا مخالف کون سے چال چل سکتا ہے انہوں نے آخر میں اپنے بعض مہروں کو آگے پیچھے کیا کہ انہیں اس وقت پتہ چلا جب شہہ سے بچنے کے لئے ان کے پاس کوئی خانہ نہیں بچا تھا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اتحادی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لئے یہ تصور سوہان روح تھا کہ اگر نومبر کے ماہ تک عمران خان برسر اقتدار رہے تو ان کے لئے گیم ہمیشہ اوور ہو جائے گا اور یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ان کے لئے ایک نئی لائف لائن ثابت ہوئی اور ان کے لئے ہمدردی کی ایک ایسی جذباتی لہر چل پڑی جس نے انہیں ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا اور اس کے بعد سے آج تک اپنے درست یا غلط فیصلوں کے باوجود عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک نیو کلس ثابت ہوئے اس میں سب سے اہم کردار ان فیصلوں کا تھا جس کے سبب اقتدار میں آنے کے بعد اتحادی جماعتوں نے جو فیصلے کئے اس نے عمران خان کی مقبولیت میں اور اضافہ کر دیا اس کے باوجود کہ عمران کا دور بھی عام پاکستانی کے لئے مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے تلخ یادوں سے بھرا ایک ڈرائونا خواب تھا اور اسی سبب 9اپریل 2022ء سے پہلے عمران خاں کی شہرت ڈھلوان پر لڑھکتی چلی جا رہی تھی۔ عمران خاں تو ڈائری اٹھا کر بنی گالہ چلے گئے لیکن دعوئوں اور وعدوں کی بھرمار کرتی نئی حکومت کے فیصلوں نے عام پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس پر اتنا بوجھ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں ڈالا تھا جہاں موجودہ حکومت انہیں ایک بوجھ کے طور پر دکھائی دے رہی ہے چاروں طرف سے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف عمران خاں اپنے اندھا دھند متنازعہ فیصلوں اور اپنے خلاف چلنے والی مہم کے باوجود لوگ شاید انہیں اس حکومت سے بہتر آپشن سمجھ رہے ہیں آصف علی زرداری جیسے زیرک سیاستدان کی تدبیریں بھی الٹی حکومت کے اس طرح گلے پڑ گئیں کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔موجودہ اتحادی حکومت کو یہ احساس ہے کہ اس نے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور یہی موجودہ حکومت کا سب سے کمزور پہلو ہے حکومت سمجھ رہی ہے کہ عمران خان کی نااہلی یا گرفتاری سے شاید معاملات اس کی گرفت میں آ جائیں۔لیکن حکومت کی یہ کوشش بھی اسے وہ نتائج نہیں دے سکے گی جس کی وہ توقع کر رہی ہے اب حکومت نے عمران خان کی تقریروں کو ٹیلی کاسٹ کرنے پر پابندی لگا کر انہیں ایجی ٹیشن کی طرف دھکیل دیا ہے(جسے بعد میں عدالت نے ختم کر دیا تھا)۔عمران خان کی مقبولیت کی ایک بنیادی وجہ مجھے تو سیدھی سیدھی حکومت کی نااہلی دکھائی دیتی ہے جس کے سبب ملک میں مڈل کلاس تحلیل ہوتی جا رہی ہے اور غریب کے لئے زندگی گزارنا دشوار تر ہو گیا ہے۔ اداروںمیں باہمی تعاون کا فقدان نظر آ رہا ہے اور ساتھ ساتھ حکومت کی بڑی کرسیوں پر بیٹھ کر مسائل کو سمجھ کر انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ عمران خان حکومت کی نااہلی‘ نالائقی اور بدعنوانی کا جس شدو مد سے تذکرہ کر رہے ہیں ان کے پورے دور میں بھی لوگ اس کا تلخ ذائقہ چکھ چکے ہیں۔یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جو بتدریج کم ہوتی نظر آ رہی ہے اور ملک کا اقتصادی ڈھانچہ کمزور پڑ رہا ہے یہ حقیقت سب سے زیادہ کڑی ہے کہ ملک کی اشرافیہ کی کارستانیاں اور مفادات اس ملک کا ہمیشہ مسئلہ نمبر ایک رہے ہیں لیکن اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سماج کے وہ تمام لوگ اور مافیاز عمران خان کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں جنہیں وہ چیلنج کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی ایسی مافیاز کو تگڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی عمران خان کوشش کر رہے ہیں کہ عام لوگوں کو حکومت سے بدظن کیا جائے اور حکومت کی کارکردگی ان کی اس خواہش کو اتنی آسانی سے پورا کرتی جا رہی ہے جس میں انہیں اپنی رٹی رٹائی تقریروں کو صرف دہرانا ہوتا ہے حکومت اس وقت عمران خان سے نہیں خود اپنی کارکردگی کے نتائج سے خائف اور پریشان ہے بس عمران عام لوگوں کی بات اسی زبان اور فرکوئنسی سے کر رہے ہیں جنہیں عام پاکستانی محسوس کرتا ہے اس کے باوجود کہ عمران خاں کے فیصلے اور ان کے دور حکومت کی کارکردگی کبھی بھی قابل فخر نہیں رہی اور میری طرح بے شمارپاکستانی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھ کر پاکستان کو موجودہ کرائسس سے نکالنے کے لئے جس بے غرضی‘ دیانتداری اور فراست کی ضرورت ہے وہ کسی کے پاس نہیں یہ سب کچھ عمران خاںکے خواب اور خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے جس کردار اورلیڈر مین شپ کی ضرورت ہے وہ عمران خاں اور ان کی ٹیم میں نظر نہیں آتی۔ ٭٭٭٭٭