حکومت و سیاست کے معاملات قساوتِ قلبی یا دل کی سختی کے بغیر طے نہیں پاتے۔ فرانسیسی ناول نگار ستاں دال کا ایک کردار ناول’’سرخ و سیاہ‘‘ میں کہتا ہے دنیا میں کامیابی دل کی سختی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ تو یہ جو حکمران اقتدار میں آ کر اربوں کھربوں کماتے اور پھر اس پہ پھولے نہ سماتے ہیں۔ یہ سب اسی دل کی سختی کے مظاہر ہیں اور اچھے صاحب ضمیر لوگ معاشرے کے سیاست و حکومت سے دور رہتے ہیں۔غلطی سے اس کوچے کا رخ کر بھی لیں تو تھوڑے ہی عرصے بعد پلٹ جاتے اور کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں کہ میری توبہ‘ یہ سیاست اپنے بس کا کام نہیں وہ اسی وجہ سے مولانا مودودی کہا کرتے تھے کہ سیاست و حکومت کے معاملات مردہ ضمیر حکمرانوں اور سیاست کاروں پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ایمان دار اور باکردار افراد اگر پیچھے ہٹ جائیں گے اور کوچہ سیاست کا رخ نہ کریں گے تو معاشرہ پاکیزہ کیسے ہو گا اور خلق خدا کو انصاف کیسے ملے گا‘ احکام شریعت کا نفاذ کیسے ممکن ہو گا۔ بلا شبہ اس موقف میں بڑا وزن ہے لیکن وقت‘ حالات اور تجربات نے بتایا کہ کوئی معاشرہ اور اس کی حکومت و سیاست میں گند ہی گند ہو تواچھے اور بھرے لوگ بھی اس گند میں اتر کر اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اختیار و اقتدار ‘ دولت کی چکا چوند شہرت کی بھوک‘ اثرورسوخ کی دوڑ اور غیروں کی نگاہ میں سرخروئی و سعادت کی تمنا‘ ایسا چیزیں ہیں جو آہستہ آہستہ ذہن اور اس کے قلب کو غفلت میں مبتلا کر دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا اور سن کر بھی نہیں سن پاتا۔ وہ اپنے گردو پیش کو تو کیا بدلے گا۔ ماحول اورگردو پیش اس کو بدل ڈالتے ہیں۔ لہٰذا کوچۂ سیاست میں داخل ہونا انہی کو روا اور جائز ہے جو کسی صاف باطن صاحب مقام سے اپنے نفس کا تزکیہ کرا چکے ہوں جن پر دنیاوی کامیابیاں اور دولت و حشمت کی چمک دمک اور ان کی حقیقت کھل چکی ہو۔ ہاں اب اگر سیاست و حکومت کے رخ اور ان کے طورو اطوار کی درستگی مقصود ہے تو ایسے یہ افراد کے ہاتھوں یہ ممکن ہو سکے گا اس کے علاوہ کوئی اور صورت ممکن ہی نہیں۔ تو کیا حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جیسی کوئی ہستی موجود ہے جو اپنی فراست ‘ اپنے کردار اور اپنی روحانیت سے اس معاشرے میں کوئی اخلاقی اور روحانی انقلاب برپا کر دے۔ اب یہ بات کم و بیش ہر کس و ناکس پر عیاں ہو چکی کہ تبدیلی اور انقلاب محض نعروں سے نہیں آتے۔اندر ہوس اقتدار ہو اور باہر تبدیلی‘ تبدیلی کی رٹ تو اس سے کوئی تبدیلی تو کیا آئے گی خود لفظ تبدیلی ہی مردود ہو کر مایوسی میں بدل جائے گی۔ جب حکومت کا حصول ہی فی نفسیہٖ منزل مقصود قرار پائے اور حکومت کو پانے کے لئے ہر قدم پر سمجھوتے کرنے پڑیں اور آپ سمجھوتے کرتے چلے جائیں، اپنے اپنے موقف سے پھرنا پڑے، یو ٹرین لینا پڑے اور آپ یہ سب کچھ کرنے پر اس لئے تیار ہوں کہ منزل مقصود تک پہنچنا ہے یہاں تک کہ سارے لٹیروں اور بدعنوانیوں کو بھی جگہ دینی پڑے تو آپ انہیں جگہ دیں‘ پہلو میں اپنے انہیں بٹھائیں تو اس لفظ’’تبدیلی‘‘ کو خیر باد کہہ دیں اور سمجھ لیں کہ آپ بھی ان ہی میں ہیں اور ان جیسے ہی ہیں جو اس مملکت عزیز میں حکمرانی کے مزے لوٹ کر اپنے انجام کو پہنچے۔ عوام کے دکھاوے کے لئے نمائشی اقدامات سے نہ پہلے کچھ ہوا تھا اور نہ اب کچھ ہو گا۔ عوام تو بے چارے سدا کے کورے ہیں اور کورے ہی رہیں گے لیکن اتنی عقل تو انہیں بھی آ چکی ہے کہ سمجھ جائیں کہ ان سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ان کی تقدیر بدلنے والی نہیں۔ اب اگر کچھ یا بہت کچھ بدلے گا تو کسی صاحب نظر ہی سے بدلے گا کہ تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔ موجودہ حکمرانوں سے اگر کوئی التجا اور التماس ہے تو بس یہی ہے کہ لفظوں کو بے حرمت نہ کریں۔ اپنے بے لگام طرز حکومت اور طرز سیاست کے ساتھ’’ریاست مدینہ‘‘ کا مقدس اظہار یہ نامناسب ہی نہیں، انتہائی بے ادبی ہے۔ اپنے ’’ہتھ چھوڑ ‘‘ وزراء اور لیڈروں کی پہلے تربیت تو کر لیں جن میں اتنی برداشت نہیں کہ مخالفانہ خیالات اور بیانات سہہ لیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دے سکیں تو ایسی ٹیم کے ساتھ آپ عوام الناس کو کیسا خواب دکھلا رہے ہیں اور یوٹرن سیاست کے لئے قوت کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔ پچھلے ایک فوجی حکمران نے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے اسلام کو استعمال کیا اور ایسے اقدامات کئے کہ جو کچھ بھی رومانس قرونِ ادنیٰ کے اسلام کے ساتھ تھا‘ اس کو ناقابل برداشت صدمہ پہنچا اور اسلامی انقلاب کا خواب بھی بکھر کر رہ گیا۔ اب آپ اپنی مصلحت پسندانہ اور یوٹرن والی عاقبت نااندیشانہ سیاست کیساتھ ریاست مدینہ کی اصلاح بار بار استعمال کر کے وہی کچھ کر رہے ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ جس طرح بھی اپنے اقتدار کو طویل دینا چاہیں لیکن ایسے لفظوں اور اصطلاحوں کو بے توقیر نہ کریں۔ اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِقبا دیکھ جو کچھ اپنے مملکت عزیز میں ہو رہا ہے‘بظاہر قابل فہم نہ ہو کر بھی قابل فہم ہے۔ صورت معاملہ تخریبی سہی لیکن ہر تعمیر کو تخریب کی کوئی نہ کوئی صورت درکار ہوتی ہے۔ اس لئے اپنا یقین تو یہی ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ایسا ہی نہیں کہ آخر آخر کو بہتری پر منتج نہ ہو۔ بگاڑ کے ساتھ بنائو‘ تخریب کے ساتھ تعمیر‘مایوسی کے ساتھ امید۔ ہر دو صورتوں میں ایک بہتری کی صورت بھی نمودار ہو گی۔ یہ ملک جس کی وجہ سے قائم ہے اور اچھے برے حالات میں بھی اپنے امکانات کو ظاہر کر رہاہے تو یہ اسی قدرت کے سبب جو اچھی طرح واقف ہے کہ اس ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے کتنی قربانیاں ہیں جو دی جا چکیں‘ کتنے پاکیزہ ہاتھ ہیں جو خدا کی بارگاہ میں اٹھ چکے اور تاحال اٹھتے ہیں۔ اس کی تعمیر و اصلاح کے لئے کتنے ہیں جو بے غرضی سے اپنے جسم و جاں اور انہیں توانائیوں کو اس پہ نچھاور کر چکے ہیں ۔اپنا تو ایمان ہے کہ خدا وند تعالیٰ جو بڑا قدر دان ہے محنت کو جو خلوص اور جانثاری کے جذبے سے کی گئی ہے۔ ہرگز رائیگاں نہ جانے دے گا۔