مرزا غالب نے اپنے لیے لکھا تھا غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا،کیجئے ہائے ہائے کیوں کسی شخص کے خاطر یہ کارخانہ حیات نہیں رکتا۔ کسی کے چلے جانے سے دنیا ختم نہیں ہوجاتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ اپنے جانے سے اپنے پیچھے اتنا خلا چھوڑ دیتے ہیں وہ اس کو پر کرتے کرتے وقت تھک جاتا ہے۔ دسمبر کا مہینہ بہت تھوڑی سی خوشیاں اور بہت سارے غموں کا مہینہ ہے۔ جب بھی دسمبر کی سرد ہوائیں آتی ہیں تو اس ماہ میں بچھڑ جانے والوں کی یاد لاتی ہیں۔ اس ماہ میں ہم سے جو اہم لوگ بچھڑ گئے ان میں برصغیر کی عظیم گلوکارہ میڈم نورجہاں اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو بھی ہیں۔ نورجہاں صرف ایک خوش آواز خاتون نہ تھیں مگر ان کی شخصیت میں ایک طرح کی گہرائی بھی تھی۔ انہوں نے جس طرح بے حساب گیت گائے اور انہوں نے جس طرح مشکل گیتوں کو اپنی خوبصورت آواز میں اوپر اٹھایا؛ یہ صرف ان کا کمال تھا۔ میڈم کے بارے میں لکھنے کا خیال میرے دل میں اس لیے بھی آیا کہ ہم سیاست میں بہت بری طرح سے الجھ گئے ہیں۔ موجودہ سیاسی اور سماجی گھٹن میں اگر ہم بہار کے بے قرار جھونکے کا ذکر کریں تو وہ ذکر میڈم نورجہاں کی شخصیت کا ہو سکتا ہے۔ مگیر پھر میرے دل میں خیال آیا کہ نورجہاں پر تم ہم کسی بھی وقت لکھ سکتے ہیں۔ موسیقی کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا۔ مگر دسمبر کے بہت بڑے دکھ کا نام بینظیر بھٹو ہیں۔ وہ بینظیر بھٹو جو بہت بڑی لیڈر تھیں مگر اس وقت ان کی یاد دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ جس طرح موجودہ دور کے نوجوانوں کے پسندیدہ شاعر جون ایلیا نے لکھا ہے: کیا قیامت ہے کہ اب تری صورت غور کرنے سے یاد آتی ہے اگر پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو کے بعد اچھے کام کرتی۔ اگر پیپلز پارٹی اپنے آپ کو کرپشن کے تیزاب میں تحلیل کرنے سے روک لیتی اور ایک جذبے سے ملک اور عوام کی خدمت کرتی تو آج ہم بینظیر بھٹو کو بھلانے کا جرم ہرگز نہ کرتے۔ بینظیر بھٹو کو بھلانے کا الزام صرف وقت پر عائد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا دل ان چیزوں کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے جو چیزیں ہمارے لیے دکھ کا باعث ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد جس طرح پیپلز پارٹی نے ان کے نام پر ووٹ لینے اور عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا اور جس طرح ہمیں بری شہرت رکھنے والے افراد کی تصاویر بھی پینا فلیکس پر بینظیر بھٹو کے ساتھ نظر آئیں اور جس طرح بینظیر بھٹو کے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے بجائے ان کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے پارٹی کوشاں رہی وہ سب دیکھ کر بینظیر بھٹو سے پیار کرنے والوں کو شدید افسوس اور دکھ ہوتا تھا۔ اس لیے عوام اور ہم جیسے افراد نے بینظیر بھٹو کو بھلانے کی لاشعوری کوشش کی اور اس کوشش میں کامیاب رہے۔ بینظیر بھٹو کا سیاسی کردار تنقید سے بالاتر نہیں ہے مگر اس وقت ہماری ملکی سیاست جس زوال کا شکار ہے اور اس وقت جس طرح اقربا پروری اور کرپشن کو جائز ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور پاکستان عالمی اور علاقائی صورتحال میں اپنے کھوئے ہوئے توازن کو تلاش کر رہا ہے تو اس صورتحال میں بینظیر بھٹو کی کمی شدت سے محسوس ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو نے عوام کو اتنا کچھ نہیں دیا جتنا انہیں دینا چاہئیے تھا مگر وہ ایک بھرپور امید کا نام تھیں۔ بینظیر بھٹو صرف عوام کے لیے امید نہیں تھیں مگر وہ اس ملک کے سوچنے سمجھنے والوں اور باشعور افراد کے لیے بھی ایک امید کی ایسی کشتی جیسی تھیں جو سمندر کے موجوں میں اچھلتی ہے مگر ڈوبتی نہیں۔ بینظیر بھٹو نے ہمارے ملک کے خواتین میں جو آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار کیا وہ ایک فطری عمل تھا۔ اس عمل میں بینظیر بھٹو کی اپنی شعوری کوشش نہ تھی مگر پاکستان کے جاگیردارانہ اور قبائلی ماحول میں خواتین ان کو دیکھ کر ایک طرح کا حوصلہ حاصل کرتی تھیں۔ وہ غریب اور حالات کے آہنی بازؤں میں جکڑی ہوئی خواتین جو کچھ نہ کر سکتی تھیں مگر اپنی بیٹی کا نام ’’بینظیر‘‘ رکھ کر خوش ہوتی تھیں اور دعا کرتی تھیں کہ ان کی غریب بیٹی بڑی ہوکر بینظیر بھٹو جیسی کامیاب خاتون بنے۔ کیا عوام کے لیے یہ حوصلہ کم ہے؟ بینظیر بھٹو صرف خوش شکل ہی نہیں بلکہ خوش لباس بھی تھیں مگر وہ صرف لباس اور بے انتہا دولت کی نمائش کا نام نہ تھیں۔ وہ جب عالمی میڈیا سے گفتگو کرتی تھیں تواپنے خاندان کے دکھڑے رونے کے بجائے ملک اور پاکستان کی علاقائی صورتحال پر ایک ماہر اور محب وطن سیاستدان کی طرح بولا کرتی تھیں۔ ان کی آواز میں ایک قوت اور طاقت تھیں۔ ان کو سن کر لگتا تھا کہ ایک سیاستدان بول رہی ہیں۔ وہ سوچنے؛ سمجھنے والے دماغ کی مالک تھیں۔ ان کے لیے سیاست عزت اور محبت کا نام تھا۔ وہ اس بات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کا سوچا بھی نہیں کرتی تھیں کہ عوام کی طرف سے ملنے والی محبت کم ہوجائے اور عالمی سیاست میں ان کی عزت پر کوئی حرف آئے۔ وہ بیحد زیادہ کام کرنے والی شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ ایک دھاگہ تھیں جس نے بہت سارے رشتوں اور بہت ساری باتوں کو آپس میں پرویا تھا۔ جب وہ دھاگہ ٹوٹ کیا تو سب کچھ بکھر گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی تو موجود ہے مگر اس کی کیفیت ایسی ہے جیسی ایک بکھری ہوئی جماعت کی ہوتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت اگر سیاسی طور پر کسی کو حزب اختلاف سمجھتی ہے تو وہ مسلم لیگ ن ہے۔ پیپلز پارٹی کو عمران خان نے عرصہ دراز سے سنجیدگی لینا چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو کیا پیپلز پارٹی کی حالت ایسی ہوتی؟ اس ملک کے اکثر سیاسی مبصرین کو محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اصل زندگی اور اس کی توانائی بینظیر بھٹو کے دم سے تھی۔ بینظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی سیاست کے آئی سی یو وارڈ میں ایڈمٹ ایک ایسے مریض کے مانند ہے جو حالات اور واقعات کے وینٹی لیٹر پر ہو۔ بینظیر بھٹو میں صرف ایک کشش نہ تھی بلکہ ان کا کردار ناقابل فراموش تھا۔ وہ حالات اچھے نہیں تھے ، انہوں نے میاں نواز شریف سے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا۔ حالانکہ وہ شخصی طور پر میاں نواز شریف کو سیاستدان تسلیم کرنے میں بہت مشکل محسوس کرتی تھیں۔ بینظیر بھٹو مثالی رہنما نہ ہوتے ہوئے بھی اس کردار کی مالک ضرور تھیں؛ جن کے بغیر پاکستان میں سیاسی چمن بہت سونا سونا سا لگتا ہے۔ فیض احمد فیض نے لکھا تھا: ہم سہل پسند کون سے فرہاد تھے لیکن اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے؟