پنجاب گورنمنٹ نے سرکاری خزانے پر بوجھ بنے بغیر، جشنِ بہاراں کی رنگا رنگ تقریبات کو شاندار طریقے سے منعقد کیا ہے۔ یہ لیڈر شپ کا کمال ہے کہ وہ ان سے کس طرح کام لیتی ہے۔ پنجاب کی قیادت نرم دم گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہے ۔ گورنر پنجاب نے ایک روز قبل پنجاب حکومت کو، پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلرز سمیت دیگر اہم تعیناتیوں کی طرف متوجہ کیا، تو شب بھر میں، ان دانشگاہوں کے وی سی ، رجسٹرار، ٹریژر جیسی بنیادی آسامیوں کے لیے متعلقہ محکموں سے سمریاں منگوا کر ،ان پر کام شروع کروا دیا۔ اسی میں ہمارے ایمان کو جِلا دینے والی "خاتم ُ النبیٖن یونیورسٹی"کو سرگرمِ سفر کرنے کے لیے ضروری اقدامات بھی شامل تھے، جن میں اس کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری کا معاملہ، وائس چانسلر ، رجسٹرار، ٹریژر ، ریذیڈنٹ ایڈیٹر جیسی اہم آسامیوں کی منظوری اور ان پر موزوں شخصیات کی خالصتاً میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر تعیناتی بھی شامل ہے۔ بہرحال وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ساتھ گورنر پنجاب محترم بلیغ الرحمن صاحب کی دردمندی اور دلسوزی بھی اہم ہے کہ انہوں نے نسلِ نو کے تعلیمی امور ، بالخصوص یونیورسٹیز اور جامعات کے طلبہ کے لیے وائس چانسلرز اور رجسٹرارزجیسے منصبداروں کی عدم دستیابی سے ان کے مستقبل اور تعلیمی کیرئیر کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات و خدشات جیسے معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ، ان کے فوری تدارک کی طرف وزیراعلیٰ پنجاب اور متعلقہ اداروں کے سیکرٹریز صاحبان کو محض مراسلے کے ذریعے متوجہ ہی نہیں کیا بلکہ اس ضمن میں گورنر ہاؤس میں فوری اجلاس کا اہتمام بھی کر ڈالا۔ اسی شام پنجاب میں رواں دواں جشنِ بہاراں تقریبات کے سلسلے میں اوقاف و مذہبی امور نے مزارِ اقبال پہ محفل سماع کا اہتمام کیا ہوا تھا، اس محفلِ سماع میں اقبال کا جو کلام پڑھا اور سُنا گیا، مزار اقبال پر اُس کی تاثیر مختلف اور دوچند تھی : نہ بینی خیر ازاں مرد فرودست کہ بر من تہمت شعر و سخن بست بہرحال یہاں پر سنایا جانے والا یہ کلام خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کے عنوان سے نہیں بلکہ نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کرنے کے عنوان سے آراستہ تھا: دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر! اقبال خود فرماتے ہیں کہ یہ نظم انہوں نے اُس وقت لکھی ، جب اپنے بیٹے جاوید اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط ان کو لندن کو موصول ہوا۔ ان اشعار میں اقبال اگرچہ جاوید اقبال سے مخاطب ہیں، لیکن اصل میں اس میں تمام مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک ضروری پیغام ہے، جس میں انہیں گراں قدر نصیحتیں اور سچی اسلامی تربیت کا راستہ بتایا گیا ہے۔ حضرت اقبالؒ کا یہی وہ فکر و فلسفہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ترقی ممکن ہے ۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت ِقرآن اقبال کے فکر کے بنیادی محور ہیں، وہ مسلمان اُمت کو تزکیہ و طہارت سے آراستہ کرنا چاہتے تھے ، وہ سمجھتے تھے کہ اُمت مسلمہ خودی اور یقین کی بدولت ہی سے ... اقوامِ عالم میں سر بلند ہوسکیں گے ۔اقبالؒ ایسے شاعر تھے جن کی انگلیاں قوم کی نبض پر تھیں اور جس نے اپنی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے جو عظیم کارنامہ سر انجام دیا ، اُس کو اس خطّے کے مسلمان ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ اقبالؒ ایک آفاقی مفکر اور بنی نوع انسان کے عظیم شاعر تھے ، انہوں نے ظلمات میں بھٹکی انسانیت کو روشنی کا پیغام دیا ، وہ انسانیت کے لیے ایک زندہ اور باعمل معاشرے کا قیام تجویزکرتے ، جس کی بنیاد روحانی اقدار پر استوار ہو، اقبالؒ نے نسل ِ نو کو بالخصوص" یقین" کی دولت سے بہر ہ مند ہونے کی طرف متوجہ کیا۔ یقین کی قوت پتھروں کو چیر دیتی اور پہاڑوں کو مسخر کر لیتی ہے ۔ علامہ اقبالؒ کی ساری زندگی امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے غور و فکر میں گزری۔ 1924ء میں انہوں نے مدارس میں چند خطبے دیے ان خطبات میں اقبال ؒنے اُمّت کو جس طرز پر احیائے فکر کی دعوت دی وہ بہت نادر ہے۔ اقبالؒ نے مسلم فکر کے تمام پہلوئوں کو از سر نو تشکیل دینے پر زور دیا ہے اور اقبالؒ کی یہ فکر اپنے متقدم مفکرین و مصلحین سے مربوط ہے ۔ شاہ ولی ا للہ، فرزندانِ ولی اللہ،جمال الدین افغانی اور سر سید احمد خان اس فکری تجدید کے بڑے نمائندے ہیں۔ اقبال ؒنے اسی فکر ی سلسلے کو آگے بڑھایا۔ بہرحال۔۔۔جشنِ بہاراں کی مناسبت سے محکمہ اوقاف نے "صوفی رنگ"کے عنوان سے جو سات روزہ تقریبات منعقد کی ان میں معیار اور کلام کے ساتھ عمدہ انتظامات نے سامعین و حاضرین کو اپنی طرف بھرپور انداز میں متوجہ کیے رکھا۔ مزارِ اقبال پر یہ اہتمام اس اعتبار سے بھی بڑا منفرد اور معتبر تھا کہ اس سے پہلے یہاں باقاعدہ سماع اور "صوفی رنگ"کا اہتمام ممکن نہ ہوسکا۔ جبکہ دین و فقر کے بعض طبقات اس امر پر مصر ہیں کہ اقبال کے کلام کے ساتھ اقبال کے مزار سے بھی فیض رسانی کا اہتمام ممکن ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ وہاں کوئی دھمال اور مولانا روم کے شہر قونیہ کی طرز کے کسی رقصِ درویش جیسی بزم آراستہ ہو، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرتِ اقبال کے خاص ایام کے حوالے سے وہاں فاتحہ اور لنگر وغیرہ ممکن ہو سکے۔