آج سے ٹھیک دو ماہ قبل ایک صاحب نے مجھے نمازِ فجر کے بعد رابطہ کر کے اہلِ نظر کا یہ پیغام پہنچایا کہ ’’گندم کی آدھی فصل کٹی ہو گی اور آدھی ابھی پڑی ہو گی کہ پاکستان کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے گا‘‘۔ یہ خبر ایسی تھی کہ سر سے پائوں تک کانپ گیا۔ صاحب معتبر تھے اور وارننگ دینے والوں کا حوالہ ان سے بھی کہیں زیادہ معتبر۔ کچھ دیر سنبھلنے میں لگی، قلم ہاتھ میں پکڑتا تو خوف سے لکھ نہیں پاتا تھا۔ ویڈیو بنانے کے لیے خود کو سنبھالا تو ہمت نہ کر پایا۔ ایک اور صاحبِ حال لوگوں سے محبت کرنے والے شخص سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے اس پیغام کی ویڈیو بنا کر گیارہ مارچ کو اپنے چینل پر ڈال دی۔ کچھ دنوں بعد خوف کے عالم سے نکلا تو اپنے یوٹیوب چینل پر 22 مارچ کو اس حوالے سے مکمل پیغام ریکارڈ کروا دیا۔ جیسے ہی یہ پروگرام ریکارڈ کروا کر گھر پہنچا تو رات کو 6.8 ریکٹر سکیل کی شدت کا زلزلہ آ گیا۔ خوف کا عالم پھر سے طاری ہوا اور استغفار کی کثرت سے دوستوں، ساتھیوں کو دُعا کی درخواست کی۔ اسی دوران کئی صحافیوں کے ہمراہ عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہاں اہلِ نظر کی وارننگ کا تذکرہ کیا تو شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا کہ سندھ میں تو گندم کی کٹائی شروع ہو چکی۔ اس کے بعد طوفانِ بادوباراں اور ژالہ باری نے اس ملک کو گھیر لیا اور لوگوں کی مکئی اور گندم کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ اللہ نے قرآنِ پاک میں کسی قوم کے ساتھ اپنی ناراضگی کو ختم کرنے کا صرف ایک راستہ بتایا ہے، ’’سو نہ ہوئی کوئی بستی کہ یقین لاتی اور ان کا یقین لانا ان کے کام آ جاتا سوائے یونس علیہ السلام کی قوم کہ جب وہ یقین لائی تو ہم نے ان سے ذلّت کا عذاب دنیاوی زندگی میں ہی ان سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت تک زندگی سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دے دیا‘‘ (یونس: 98)۔ یہ مہربانی اس لیے ہوئی تھی کیونکہ حضرت یونس ؑکی پوری قوم اجتماعی طور پر اللہ سے معافی کی طلب میں سجدہ ریز ہو گئی تھی۔ پاکستان کو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پارٹنر بنے ہوئے آج بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس جنگ کا مرکزی کردار پرویز مشرف اپنے اعمال کا حساب دینے اللہ کے حضور پہنچ چکا ہے، لیکن موت سے پہلے اللہ نے اسے افغانستان میں اس امریکہ کی شکست دکھا دی تھی جس کے خوف سے اس نے ایک فون کال پر مسلم اُمہ کی ایٹمی طاقت کو امریکی اشاروں پر نچوایا تھا۔ ٹھیک ان بیس سالوں میں اہلِ نظر اس قوم کو اجتماعی استغفار کا بار بار مشورہ دیتے رہے اور ان اہلِ نظر کے ایک معمولی سے ’’ڈاکیے‘‘ کے طور پر مَیں، اپنے کالموں میں مسلسل دست بستہ عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ ہماری نجات بحیثیت مجموعی استغفار میں ہے۔ بار بار لکھا کہ، اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب کے تین روپ بتائے ہیں، ’’آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پائوں تلے سے یا کہ تم کو گروہ میں تقسیم کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزا چکھا دے‘‘ (الانعام:65)۔ گذشتہ بیس سال میں ہم پر پہلے 2005ء کا شدید زلزلہ آیا، پھر 2010ء کا سیلاب آیا، اور پھر ہمارے گلی کوچے میدانِ جنگ بن گئے، لیکن ہم باز نہ آئے۔ جتنے لوگ اس جنگ میں ہمارے ہاں جاں بحق ہوئے اس کا عشرِ عشیر بھی کسی اور ملک میں نہیں مارے گئے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ستاّون اسلامی ملک ہیں تو پھر یہ عذاب پاکستان پر ہی کیوں آتا ہے؟ ہم ہی اللہ کے غضب کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ وہ وعدہ خلافی ہے جو ہم گذشتہ پچھتر سال سے کر رہے ہیں۔ ستاّون اسلامی ممالک میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جو اس وعدے پر قائم ہوا ہو کہ یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے اور یہاں اللہ کی حاکمیت کا پرچم شریعت کی صورت لہرائے گا۔ باقی تمام مسلمان ممالک رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر اُبھرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اُصول قرآنِ پاک میں کھول کر بتا دیا ہے کہ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ اسے مانو یا اس کا انکار کر دو۔ لیکن اگر آپ اسے مالکِ کائنات اور فرمانروا مانتے ہو تو پھر اس کا یہ حکم ہر معاملے میں ماننا ہو گا، کہیں بھی تمہاری اپنی مرضی نہیں چلے گی۔ اگر تم نے کچھ احکامات کو مانا اور کچھ سے انکار کیا تو پھر ’’تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ دنیوی زندگی میں ذلّت و رُسوائی کے سوا کیا ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا‘‘ (البقرہ: 86)۔ اللہ اس دنیا میں کفار کو ڈھیل دیتا ہے اس لیے کہ ان کے لیے پکڑ آخرت میں لازم ہے۔ لیکن وہ مسلمان جو اس سے عہد کر کے نافرمانی کرتے ہیں انہیں دنیا میں ہی ذلیل و رُسوا کر دیتا ہے۔ اللہ کے عذاب کی ایک اورعلامت یہ بھی ہے کہ، ’’جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے، پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں‘‘۔ اسلام کے نام پر قائم اس ملک میں یہ تمام علامتیں صادق آ چکی ہیں۔ ہمارے خوش حال لوگ وہ اشرافیہ ہے جو حکومت کے ایوانوں اور مقتدر قوتوں کی صورت میں ہم پر مسلّط ہے اور وہ اپنی مستی و تکبر میں گم ہے۔ یقینا ان سے اللہ کی کھلی نافرمانی سرزد ہو رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جنہیں اللہ نے دین کا علم عطا کیا وہ بھی اب اسی اشرافیہ کی گود میں بیٹھے ہیں۔ سیدالانبیائﷺکی اس حدیث کے مطابق وہ ان کے دست و بازو بن چکے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جلد ہی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا، اور قرآن صرف رسم کے طور پر استعمال ہو گا۔ ان کی مساجد بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت کے اعتبار سے خراب ہوں گی۔ اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ فتنے انہی سے نکلیں گے اور انہی میں لوٹا دیئے جائیں گے‘‘ (مشکواۃ۔ کتاب العلم)۔ ہم ایک حالتِ عذاب میں تو ہیں مگر سنبھلنے کی کوئی ترکیب نظر نہیں آرہی۔ لیکن ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں ہم پر وعدہ خلافی کا ویسا عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا دو دفعہ بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا، ’’تو ہم نے بھیجے تم پر اپنے بندے لڑائی والے سخت تو وہ گھس گئے گھروں کے اندر‘‘ (بنی اسرائیل:5)۔ ’’اور جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ایسے لوگ بھیجے جو بگاڑ دیں تمہارے چہرے اور داخل ہو جائیں مسجد میں جیسے پہلی بار داخل ہوئے تھے اور ویران کر دیں جہاں غلبہ پائیں پوری طرح ویران‘‘ (بنی اسرائیل:7)۔ بظاہر پہلا حملہ بابل کے حکمران بخت نصر نے کیا تھا اور دوسرا حملہ رومن جرنیل ٹائٹس کا تھا مگر اللہ فرماتا ہے، میں نے انہیں تم پر عذابِ صورت بھیجا تھا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ’’تم لوگ پہلی اُمتوں (یہود و نصاریٰ) کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے‘‘ (صحیح بخاری)۔ قوموں پر عذاب ان کے اندر پہلے آپس کی لڑائی سے آتا ہے اور پھر ان پر دوسری قوموں کو مسلّط کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم بنی اسرائیل کی پیروی میں اللہ سے غافل ہیں تو کیا ہم پر کسی ظالم کو مسلّط نہیں کیا جائے گا۔ ’’اللہ کا دستور ہے جو پہلے لوگوں پر گزر چکا ہے اور تم ہرگز اللہ کے دستور میں تبدیلی نہیں پائو گے‘‘۔ (الفتح: 23)۔