لینن نے کہا ہے ’’لوگ ہمیشہ سے سیاست میں فریب اور خود فریبی کا شکار رہے ہیں اور ہمیشہ ہی رہیں گے‘‘۔ سیاست میں فریب کیا ہے یہ بر ٹرینڈرسل نے یہ سمجھا دیا۔’’ایک ایماندار سیاست دان کو جمہوریت اس وقت تک برداشت نہیں کرے گی جب تک کہ وہ بہت زیادہ احمق نہ ہو۔‘‘ وہ رسا چغتائی نے کہا ہے نا: دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے ان بتوں کو کہاں خدا لے جائے سیاست کے دل میں فریب جو صدیوں سے آباد ہے وہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی احمق تلاش کر ہی لیتا ہے اور کرتا بھی رہے گا۔قیام پاکستان کے بعد اس سیاست نے نہ صرف بانی پاکستان کے قریبی ساتھیوں کو جوتوں میں دال بانٹنے پر لگا دیا بلکہ وہ اس فریب میںکہ وہ بااختیار ہیں ایک دوسرے کا سر لینے پر اتر آئے۔اقتدار کی سیاست نے ملک کو مارشل لاء کی طرف دھکیل دیا مگر مارشل لاء لگانے ولے ڈکٹیٹر کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ سیاست فریب کے بغیر ممکن نہیں اور فریب کے لئے احمق ہی موزوں ہوتے ہیں یہ ضرورت ایک ڈکٹیٹر کو پھر سیاستدانوں کے درپے لے گئی۔ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے نام پر گود لیا گیا۔ جلد بھٹو کو بھی احساس ہو گیا انہوں نے اقتدار کے ساتھ اختیار کے لئے جدوجہد شروع کی اور ایوب خان کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کر دیا یہ الگ بات ہے کہ اقتدار اور اختیار کی جنگ کی آگ میںآدھا پاکستان برف کی طرح پگھل گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی خود فریبی کا شکار ہوئے گو انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے علاوہ پاکستانیوں کے دماغ میں شعور کا بم رکھنے کی کوشش کی مگر سیاست کی فریب کاریاں ان کو بھی ان کے انجام کی طرف لے گئیں۔ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست دان ہی کندھوں پر اٹھا کر پھانسی گھاٹ تک لے گئے، سیاستدانوں کا یہ فریب ہی تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو گڑھی خدا بخش میں دفن کرنے کے بعد وہ اقتدار اور اختیار کے مالک ہوں گے مگر یہ اقتدار اور اختیار بھی نظروں کا دھوکہ ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف نے اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کے ساتھ محمد خان جونیجو کے ساتھ اتنی مہربانی ضرور کی کہ کرسی چھوڑنے پر ان کی جان بخش دی۔جونیجو سے بے وفائی سے نواز شریف کو اقتدار تو مل گیا مگر اختیار کی خواہش نے ان کو اٹک جیل اور پھر جدہ تک پہنچا دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو جلا وطنی میں سیاست کا فریب سمجھ میں آیا انہوں نے مزید حماقتیں نہ کرنے کا عہد کیا مگر کھیل کے اصول بنانے والوں کو کھیل کے اصول توڑنا منظور نہ تھا اس لئے نئے احمق کی تلاش شروع ہوئی ۔کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹ کر کسی’’ ایماندار‘‘ کی تلاش کی منا دی کروائی گئی وہ کہتے ہیں ناں ! ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے اور برٹرینڈرسل کی تعریف کے مطابق عمران خان کی صورت میں ایک احمق ایماندار مل گیا۔ جس کو چوروں لٹیروں کے احتساب کا علم تھما کر میدان سیاست میں اتارا گیا۔ جب تک عمران خان کو اپنی حماقت کا احساس ہوا اور عمران نے بھی نواز شریف کی طرح اقتدار کے ساتھ اختیار کا مطالبہ شروع کیا تو مریم نواز پلڑا برابر کرنے کے فریب میں آ گئیں۔ پلڑا برابر تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ایماندار کو بھی کرپشن کے کیچڑ میں لت پت دیا جائے۔ راقم نے یکم جولائی 2022ء کو انہی سطور میں نواز، زرداری اور عمران ایک پیج پر کے عنوان سے جرمن ماہر نفسیات الزبتھ کوبلر راس کے غم کے پانچ مراحل انکار، غصہ، سودے بازی، افسردگی اور قبولیت کا ذکرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ جلد عمران خان سیاست میں فریب کی آفاقی سچائی کو قبول کر لیں گے اور یہ اس وقت ہوا جب نواز شریف زرداری اور عمران خاں ایک ہی ٹرک پر سوار ہوں گے۔عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سیاست میں سیاست کے لئے نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے آئے تھے۔ بھٹو تو پھر بھی سیاست میں طاق تھے اگر انا پرست نہ ہوتے تو نواز شریف کی طرح کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا مگر انہوں نے سیاست کے بجائے تاریخ میں زندہ رہنا پسند کیا۔ نواز شریف کا معاملہ الگ ہے تین بار وزیر اعظم بننے کے بعد شاید وہ سیاست میں فریب کو صرف سمجھ ہی نہیں چکے بلکہ فریب کو بھی فریب دینے کے چکر میںہیں یہ بات کسی اور کو سمجھ آئے یا نہ آئے مگر سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں اور فریقین اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ نواز شریف جو کام زرداری سے کرواسکے اور خود بھی نا کرسکے وہ عمران خان سے کروانے میں کامیا ب ہو چکے ہیں۔نواز شریف نے نام لے کر حساب تو مانگا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ حساب لے گا کون! یہ نواز شریف کی سیاست کا ہی کمال ہے کہ نواز شریف عمران خان کو جیل میں ڈال کر ناصرف پلڑا برابر کر رہے ہیں بلکہ’’ ضدی خان‘‘ کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سیاست میں کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات کس طرح لگتے ہیں کس طرح گرفتاریاں اور سزا ئیں اور نا اہل کیا جاتا ہے۔ اگلے چند مہینوں میں عمران خان کو نواز شریف کا پیغام جائے گا اور زرداری نواز شریف اور عمران ایک پیج پر آ جائیں گے اور یہ عمران خان کی نااہلی سے پہلے ہو یا پھر بعد میں مگر ہو گا ضرور!!۔ سیاست اور فریب کے اس کھیل کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کے بارے میں ہمارے دوست حتمی نتیجہ تو نہیںمگر اتنا ضرور بتا رہے ہیں کہ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی ہو مگر اختیار اسی کے پاس رہے گا جو طاقت کے مرکز پر براجمان ہو گا۔دعویٰ تو یہاں تک کیا جا رہا ہے کہ نواز، زرداری ،عمران جو بھی کر لیں اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے موصوف نے تو عمران خاں کے نام کے ساتھ نواز شریف کے نام پر کراس لگاتے ہوئے پیش گوئی کر دی ہے کہ عمران اور نواز شریف کا فیصلہ ہو چکا۔ آصف زرداری کو کہاں رکھنا ہے اس کا فیصلہ بھی ہو گیا ہے اب جن گھوڑوں پر بازی لگائی جائے گی ان میں آخری آپشن شہباز شریف ہے اور اس کی وجہ شہباز شریف کی نواز شریف سے وفاداری کا خوف ہے یا تو شہباز کو یہ پل صراط عبور کرنا ہو گا ورنہ پلان اے بی سی بنانے والے تو اپنے پلان پر عمل شروع کر چکے نئی پارٹی کی تشکیل کا آغاز ہو چکا جس کو شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مصطفی نواز کھوکھر،مہتاب عباسی، اعتزاز احسن لطیف کھوسہ لیڈ کریں گے۔سیاسی تقدیر لکھنے والوں نے تو پرویز الٰہی شاہ محمود قریشی سمیت سینکڑوں نہیں تو درجنوں نامور سیاستدانوں کے مقدر میں نئی پارٹی کی رکنیت لکھ دی ہے وہ کہتے ہیں نا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر اس بار ’’ایماندار احمق‘‘ کے سیاسی جنازے پر فریب کے ساتھ عام آدمی بھی ماتم کناں ہے اور رسا چغتائی کی طرح بین کر رہا: زندگی میں حماقتیں بھی کروں اس کا پھر سدباب بھی دیکھوں