9نومبرکوعلامہ اقبال کا یوم پیدائش منایا گیا اس دن کی مناسبت سے کئی پروگرام منعقد ہوئے اوعلامہاقبالؒ کی حیات پرروشنی ڈالی گئی۔حضرت علامہ اقبالؒ کی کشمیر سے انسیت اورمحبت کاتقاضا ہے کہ آج کے اس کالم میں اس پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔ کشمیرہمیشہ علامہ اقبالؒ کی نظروں میں رہاکیونکہ یہاں کی رعایا مسلمان تھے اور وہ ایک ہند ڈوگرہ کے زیر تسلط تھے۔ اہل کشمیر کے دور غلامی کی تاریک پرچھائیوں کے آر پار ان کی عقابی نظروں نے بغاوت اور انقلاب کے دھارے دریائے جہلم کی لہروں سے پھوٹتے ہوئے دیکھے تھے۔ علامہ اقبالؒ کوکشمیر کی جدوجہدآزادی کا منظر وجدانی طور پر صاف اور واضح نظر آرہا تھا۔مسلمان برصغیر پاک و ہند کا ہوں یا دنیا کے کسی بھی گوشے کا سب کو علامہ اقبالؒ تربیتِ خودی اور استحکامِ خودی کا درس دیتے ہیں تاکہ فرد اپنی اصلیت سے آگاہ ہو سکے اور اپنی پنہاں خوبیاں اجاگر کر کے غلامی کے بجائے آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکے۔ علامہ اقبالؒکا وطنِ مالوف کشمیر ہے ان کے آبائو اجداد 19ویں صدی کے آخر میں کشمیر سے سیالکوٹ ہجرت کر گئے لیکن ان کی خاندانی یادیں اسی طرح تازہ دم رہیں۔علامہ اقبال کے پردادا شیخ محمد اکبر جب کشمیر افغانوں کے قبضے سے نکل کر سکھوں کے تسلط میں آ رہا تھا۔ عدم تحفظ کے عالم میں کو لگام کے گائوں آرونی سے براستہ بانہال ٹو جموں کے راستے سیالکوٹ پہنچے اور یہیں آ کر مقیم ہو گئے۔ ان کا دل کشمیریوں کے مسائل حل کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ، جدوجہد آزادی کشمیر میں خصوصی مقام رکھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کو کشمیر کے لہو رنگ ہونے کا احساس تھا کہ پرامن کشمیری مسلماں کتنے مجبور و محکوم ہیں۔ علامہ اقبالؒ ارمغانِ حجاز میں فرماتے ہیں۔ آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک مردِ حق ہوتا ہے جب مرغوبِ سلطان و امیر بال جبریل میں مشہور نظم ساقی نامہ میں علامہ اقبالؒ نے اس پربہار وادی کی منظر کشی کی ہے اور کشمیری نوجوانوں کو جراتِ رندانہ کا درس دیا ہے۔ بتایا ہے کہ نیلی نیلی فضا اور ہوا میں ایسا سرور ہے کہ پرندے بھی موج مستی کرتے ہیں اور اپنے آشیانوں سے نکل کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انساں ہمت کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔جب وہ چاہتا ہے تو زمانے کے انداز راگ اور ساز بدل جاتے ہیں۔ اٹھا سا قیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے علامہ اقبال ؒکی شاعری میں ایسا کمال کا درس خودی اور فکری رہنمائی ہے جو انسان کو زمیں سے اٹھا کر کامیابی و کامرانی کے آسماں تک پہنچا دیتا ہے۔کیونکہ ان کاکلام قرآن اوراحادیت کا شاعرانہ ترجمہ ہے ۔کشمیرکی تحریک آزادی کا بغور مطالعہ کیاجائے تو یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ یہ تحریک قرآن اوراحادیث کے تفہیم ،تدبراوردرس خودی کے حوالے سے علامہ کی تشریح کی رہین منت ہے۔ اقبالؒ کا وطن کشمیر ہے اور وہ ایک والہانہ پن کے ساتھ اپنے آپ کو اس جنت کشمیر کا ایک پھول کہہ کر پکارتے ہیں۔ محض آبائی علاقہ ہونے کے باوصف اقبالؒ کاکشمیرسے انسیت ومحبت کاہی معاملہ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کرآپ نے عالم اسلام کوجگانے کا بیڑہ اٹھائے رکھا تھا۔مسلمانان برصغیرکواس وقت جگایاجب ان پر بے حسی کا عالم طاری تھا۔ ہندوستانی1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کھانے کے بعد ہمت ہار چکے تھے۔ مسلمانوں پر انگریز حاکموں نے بغاوت کا الزام لگا کر ان کی بری طرح سرکوبی کی تھی۔ اس لئے بظاہر ان میں ایک نئی زندگی کی کوئی رمق بھی باقی نہیں تھی۔ ادھر دنیائے اسلام کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ مسلمان حکمران فرانس ،انگلینڈاوردیگرغیر ملکیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے اوراپنی رعایا کے لئے وہ نہایت جابر و قاہر تھے۔ وہ خود عیش و عشرت میں سرشار تھے مگررعایا کوانہوں نے جہالت و افلاس میں سرمست رکھا تھا۔ یورپ کے گدھ ان کو مردار سمجھ کر ان پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑے تھے۔ اس دوران مسلمانوں کو پنجہ ظلم سے نجات دلانے اوران کی اصلاح کے لئے دنیائے اسلام میں چند شخصیات ابھرکرسامنے آئیں لیکن ان میں سے اکثر وہ تھیں کہ جو محض وطنیت ،نسلیت اورلسانیت کی بنیادوں پر مسلمانوں کو بیدارکرنے کا ایجنڈارکھتی تھیں اوران کی کوششوں سے امہ کاسدھارہرگز ممکن نہیں تھا البتہ بکھرائو یقینی تھا اورجوامہ کومزید قعرمذلت میں پھینکنے کا باعث بن رہا تھا۔ ایسے عالم میں ایک ایسے معمار کی ضرورت تھی جو ان مختلف اینٹوں سے مصطفوی بنیادوں پر ایک نئے حصار کی تعمیر کرے۔ اللہ نے اس کام کے لئے علامہ اقبالؒ کو پیدا کیا۔ اقبال ایک ایسے دیدہ ور شخصیت تھے جو خود بیدار تھے اور مسلمانان عالم میں نظریہ امہ کو بیدار کر رہے تھے۔ علامہ اقبالؒ طریق عمل میں خود مردانہ وار گامزن تھے اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلنے کے داعی تھے۔ ان کا سینہ سوز محبت سے اس لئے مالا مال تھا وہ امہ کے ہرفردکے سینے میں بے لوث محبت اوربے باک صداقت ڈال رہے تھے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شان دوبارہ حاصل کر سکے۔اپنی شاعری کے ذریعے علامہ اقبالؒ اسلاف کی عظمت کو بار بار اس لئے یاد دلاتے تھے کہ مسلمان پھر سے ان کی پیروی کر کے غلامی کی ذلت سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان کا دل مسلمانوں کی بے حسی اور جمود کو دیکھ کر کڑھتا تھا اسی لئے وہ احساس خودی اور ضبط نفس کے پاکیزہ جذبات کو ایک دفعہ پھر ان کے اندر تروتازہ کررہے تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبالؒ کے خیالات میں مسلمانوں کے تنزل اور ابتلا ء کے بارے میں اس وقت ایک معنی خیز تبدیلی آ گئی جب انہوں نے جارج برنارڈشا کے یہ الفاظ سن لئے کہ دنیا میں سب سے اچھا مذہب اسلام ہے مگر سب سے بدتر آج کامسلمان اس کے بعد علامہ اقبالؒ ساری عمر اہل اسلام کی ذہنی، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کے نکھار کو اس پسماندہ ملت کی متاع حیات بنائے جانے کی سعی کرتے رہے جس کے باب ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔جسے عرف عام میں فکراقبال کہاجاتا ہے۔ فکرِ اقبال پوری دنیا میں غفلت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ظلمت کے گپ اندھیروں میں روشنی کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کاسینہ امہ کے درد والم سے بھرچکا تھا ۔