تاریخ میں نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ عالمی شہرت کا حامل ہے۔ ہر دور میں سیاسی حالات ‘واقعات ‘ معاملات اور احباب کم و بیش ایک جیسے رہتے ہیں، اسی لئے سیاست نامہ کے سیاسی اصول اور قوانین آفاقی اور مثالی اہمیت اور افادیت کے حامل ہیں۔سیاست نامہ میں لگ بھگ 40چالیس سنہری اصول بیان کئے گئے ہیں،جو آج بھی ریاستی‘معاشرتی‘ عوامی‘انتظامی اور سیاسی امور میں رہنما ہیں۔پاکستانی سیاست بھی قدیم و جدید سیاسی روایت کا مظہر ہے۔ یہ ست رنگ ہی نہیں‘ صد رنگ ہے۔ اس کے ہر رنگ‘ انگ اور آہنگ کو ایک مختصر کالم میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ پاکستانی سیاست انتہائی پیچیدہ اور باہم متضاد اور متصادم ہے۔ یہ سیاسی یکسوئی اور یک جہتی سے محروم اور عاری ہے۔ اس میں سیاسی اتحاد اور محاذ بنتے ہیں اور بہت جلد فکر و عمل کے تضاد اور اہداف کے باعث ٹوٹ جاتے ہیں، زیر نظر کالم میں سیاسی احباب‘ احزاب اور اہداف کا ذکر کم اور سیاسی مسائل کا ذکر زیادہ ہو گا۔ یہ مسائل قومی سلامتی سیاسی استحکام و عدم استحکام اور پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور بقا کے لئے خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاست کی بنیاد ریاست کا استحکام‘ عوام کی یکجہتی اور بھلائی کے ساتھ ریاستی اداروں کی حد بندی کے ساتھ احترام اور تعظیم کا نام ہے، اگر ریاستی اداروں اور معاشرتی فکر و عمل میں ہم آہنگی ہو گی تو کامیابی یقینی ہے وگرنہ خانہ جنگی ہو گی۔چند ایک اہم سیاسی مسائل درج ذیل ہیں۔ پہلا مسئلہ ایک انار سو بیمار کا ہے، وزارت عظمیٰ کی مسند ایک ہے اور تین طاقتور امیدوار ہیں۔ ن لیگ پی پی پی اور پی ٹی آئی ۔زرداری بہرطور بلاول کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ بلاول کی وزارت عظمیٰ ن لیگ کی پارلیمانی اور انتخابی مفاہمت کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا زرداری کی مجبوری شریف برادران سے مفاہمتی عمل میں رہنا بھی ہے۔ روایت کے مطابق شہباز اور بلاول ڈھائی ڈھائی سال کی باری بھی لگا سکتے ہیں جبکہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں مذکورہ بالا گردشی یا گشتی کرسی کا کھیل ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں پی پی اور ن لیگ کی باہمی مفاہمت یہی ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی کا کپتان پارلیمان میں نہ آئے تاکہ وزارت عظمیٰ کے تیسرے گھوڑے کو میدان میں اتارا نہ جا سکے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی قومی و بین الاقوامی پالیسی میں نظریاتی حلیف ہیں ۔ راقم کا غالب امکان ہے کہ اگر ن لیگ قومی پارلیمان میں نصف سے زائد نشستیں (سیٹ) حاصل نہ کر سکی تو نواز شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہیں گے۔ حماس اسرائیل لڑائی نے پاکستان کا سیاسی و عسکری منظر نامہ بھی بدل دیا ہے، آج امریکہ و اتحادی ممالک کی پہلی ترجیح معتمد ترین جمہوری حلیف کو برسر اقتدار لانا ہے‘ جبکہ بہاولپور فضائی سازش(17اگست 1988ئ) کے بعد پاکستان کی امریکہ نواز عسکری پالیسی میں رخنہ پڑ چکا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے اعلانیہ عالمی حلیف امریکہ و اتحادی ممالک پاکستان میں فوجی و جمہوری سربراہوں کے بارے میں پہلے سے زیادہ محتاط اور ہوشیار رہے گا۔ یاد رہے کہ موجودہ الیکشن امریکہ و اسرائیل کے ماتحت چلنے والے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی اعلانیہ فرمائشی بندوبست کی ایماء پر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے جملہ مالیاتی معاملات کا مرکز بنک دولت پاکستان(سٹیٹ بنک SBP) ہے۔ آج نگران انتظامی کابینہ FBR(فیڈرل بورڈ آف ریونیو) بھی آئی ایم ایف(IMF) کو نجکاری کے ذریعے سپرد کرنے کے درپے ہے اگر سٹیٹ بنک اور ایف بی آر‘ آئی ایم ایف کے ماتحتی بندوبست میں رہا تو حکومت پاکستان وطن عزیز سے مہنگائی اور غربت کا تدارک کرنے میں یکسر ناکام رہے گی۔ سٹیٹ بنک کی خود مختاری اور آئی ایم ایف کے انتظامی بندوبست کے باعث حکومت پاکستان اپنی قومی کرنسی روپیہ چھاپنے کا اختیار کھو چکی ہے اور FBRکا مطلب عوام پر ٹیکسز Taxes کی بمباری کا اختیار بھی آئی ایم ایف کے سپرد ہو جائے گا۔ نواز شریف (ن لیگ) کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف فری (IMF Free)کر دیں گے جبکہ پاکستان عالمی امریکی و اسرائیلی نظام کے شکنجے میں اس قدر جکڑ چکا ہے کہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف (ن لیگ کی مخلوط سرکار) نے جون 2023ء کا بجٹ آئی ایم ایف فری دیا اور بعدازاں جمہوری دبائو کے تحت سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا۔ایں چہ بوالعجبی است۔ قائد اعظم نے سٹیٹ بنک کی سنگ بنیاد کی افتتاحی تقریب میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ سٹیٹ بنک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظریاتی مالیاتی محافظ ہے۔ جو دنیا کو موجودہ مغربی سودی نظام سے نجات دلائے گا اور مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے سٹیٹ بنک کا مالیاتی تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کا مقصود غلامی کی تاریکی میں غرق اسلام کا معاشی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا تھا۔ پاکستانی بچوں کا حال یہ ہے، سیاست وراثت بن گئی زبان(مہاجر‘ سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی‘ پشتو وغیرہ) شناخت ٹھہری۔قومی مفاد کے بجائے عالمی مفاد مقصود بن گیا۔ آئین مذہبی یکجہتی کے بجائے مسلک کا پاسدار ہے۔ صوبائی خود مختاری عام ہے، سرحدی گاندھی اور ان کے نظریاتی حلیف اور حریف یکجان ہیں۔صوبہ سرحد کا نام بدل کر لسانی اور صوبائی جداگانہ شناخت کو فروغ دیا گیا، افواج پاکستان عوام اور فوج کی یکجہتی کے لئے کوشاں ہے مگر سرکاری ملازمین اور پینشرز کو آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا، جو فی الحال فوجی ملازمین اور پنشنرز کو استثنیٰ دے رہے ہیں۔ جب عوام یعنی معاشرہ کمزور اور بے بس ہو گیا، تو فوج کا بس بھی ختم ہو جائے گا۔ وفاق کی مضبوطی اور صوبائی خود مختاری کی حد بندی زیر غور ہے۔ جس کے لئے سیاسی احزاب اور احباب(پارٹیاں اور لیڈرز) باہم متصادم ہیں، الیکشن کے دنگل میں جانے کے لئے قومی و صوبائی سیٹ ایڈجسٹمنٹ عام ہے۔ پی ٹی آئی ہو یا استحکام پاکستان پارٹی۔ اے این پی ہو یا ایم کیو ایم‘ جے یو پی ہو یا جماعت اسلامی یا لبیک الیکشن اور پارلیمان میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر حکومت بنانے اور گرانے کا حسب روایت اختیار حاصل کر لیں گے۔ پاکستان کی معاشی بہتری‘ قومی سلامتی معاشرتی یکجہتی اور ریاستی اداروں بشمول افواج پاکستان کا یکسو اور ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔جس کے لئے پاکستان میں مخلوط کے بجائے مضبوط سرکار سازی درکار ہے۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے