یہ رمضان المبارک ہی کی ایک سہانی ترین صبح کا ذکر ہے ، جسے مدینہ منورہ کی خوش گوار و معطر فضاؤں نے تقدس کا ہالہ بھی عطا کر رکھا تھا۔ مکہ مکرمہ سے نمازِ تراویح کے بعد چلنے والی ہماری بس، کسی ویران سے عربی ڈھابے سے اجنبی کھانوں کے ساتھ روزہ رکھوانے کے بعد عین نماز فجر کے وقت مدینہ کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔ مسجدِ نبوی ﷺ کے مشرقی دروازے پر بس سے اُترتے اُترتے جماعت کا عمل شروع ہو گیا۔ ہمارا چار لوگوں کا مختصر سا قافلہ ہوٹل کی تلاش کے عمل کو مؤخر کرتے ہوئے سفری سامان مسجد کے صحن میں چھوڑ کر کشاں کشاں جماعت کی طرف لپکا۔ اس خوش اوقات لمحے میں خوش قسمت امام خوش الحانی کے ساتھ سورہ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا ۔ ذہن میں خیالات کا تانتا سا بندھا ہوا تھا کہ یہ وہی شہر ہے، جسے وجہِ وجودِ کائنات ﷺ نے نہ صرف ایک مخصوص انداز سے آباد کیا بلکہ یہیں دنیائے اسلام کی مثالی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ پھر یہ مسجد بھی وہی ہے، جس کا آج کا حدود اربعہ اس زمانے کے پورے مدینہ پر محیط ہے۔ یہ وہی متبرک عبادت گاہ ہے، جہاں امام سے تھوڑے سے فاصلے پہ آپ ﷺ کا جسدِ اطہر قبر کو منور کیے ہوئے ہے۔نماز میں پڑھا جانے والا یہ وہی خدائے لم یزل کا کلام ہے جسے رہتی دنیا تک کے انسانوں کی ہدایت کی خاطر آپ ﷺ پر نازل کیا گیا۔ انھی لمحات میںدل میں ایک کھُد بُد سی چل رہی تھی کہ اس تاریخی مقام پر ادا کی جانے والی پہلی نماز میں دیکھے امامِ محترم قرآن کی کون سی آیت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی لمحے سورہ فاتحہ مکمل ہوئی تو ہلکے سے توقف کے بعد امام کی آواز ابھری: َاَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرََکَ کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا… دل میں حیرت کا ایک ہالہ سا اُترا کہ یا الٰہی! محترم امام کو کیسے خبر ہو گئی کہ دُور دیس سے آیا ہوا ایک گم نام سا اُمتی، جو خود کو ہمہ وقت قلم کاری اور دنیا داری کی مشقت میں مبتلا رکھتا ہے۔ تصورات کے تانے بانے بُننا اور خیالات کی اُلٹی سیدھی کڑیاں ملانا اُس کا مشغلہ ہے۔ بلا شک و شبہ خوابوں اور خواہشوں کی اس سر زمین کے اوراقِ نو پر وہ آج ایسے ہی کسی موزوں ترین دیباچے کی توقع کر رہا تھا، جس میں کائنات کی سب سے بڑی ہستی اپنے سب سے برگزیدہ بندے سے براہِ راست مخاطب ہو۔ یہاں تو صرف خطاب نہیں کیا جا رہا بلکہ خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ چودہ سو سال پہلے کے مکہ کے اُس آلودہ ترین ماحول میں آسودہ ترین چالیس سال گزارنے، سنگ ریزوں کی اُس وادی میںپرلے درجے کے سنگ دل لوگوں سے خود کو صادق اور امین کے طور پر منوانے،قصبے کی رونقیں چھوڑ کر ایک ویران غار میں کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے کے صلے میں ہم نے آپ ﷺ کے اوپر انسانی زندگی کے تمام راز فاش کر دیے ہیں۔ آپ ﷺ کو کائنات کے رازوں کا امین بنا دیا ہے۔ وَوَضَعْنَاعَنْکَ وِزْْرَک اَلَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَ کْ اور تجھ پر سے تیرا وہ اندرونی و بیرونی بوجھ بھی ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اتار دیا ہے، جس نے تیری پیٹھ توڑ ڈالی تھی…یعنی جو سوچیں، جو فکریں، جو خواب، آپﷺ کو گھُلائے دیتے تھے، ان کی تعبیر اور ترکیب عطا کر دی ہے۔ دین و دنیا کے جو مسائل، دل و دماغ کا بوجھ بنے ہوئے تھے ، ان کو نہایت قرینے سے سلجھا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ والوں اور نہایت قریبی رشتہ داروں نے آ پ ﷺ کو تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ ایک طرف اپنوں کی بے رخی و ایذا رسانی، دوسری جانب غیروں کی منافقت اور کینہ، پھر دین کی تبلیغ و تفہیم کے معاملات، ایسے میں دنیا بھر کی متکبر طاقتوں تک تکبیرِ خداوندی کے پیغام کی ترسیل، کسی بھی شخصیت کو تھکا دینے کے لیے کافی تھے۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا… اصل مژدہ یہ ہے کہ ہم نے تیری اس امانت، دیانت، صداقت اور استقامت کے عوض تیرا ذکر رہتی دنیا تک کے لیے بلند کر دیا۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی جانب سے یہ ایسا انعام تھا کہ جس پر کائنات بھر کے جن و انس، آفاق و افلاک، گزشتہ و آیندہ صدیاں فخر کر سکتی ہیں لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ اتنے بڑے اعزاز سے سرفراز ہونے کے باوجود تمام عمر تکبر و رعونت کا ہلکا سا شائبہ بھی آپ ﷺ کے قول وعمل میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہاتھ سے موزے سیے جا رہے ہیں، جوتے گانٹھے جا رہے ہیں، کپڑوں پہ پیوند لگ رہے ہیں۔ پیٹ پہ پتھر ہیں، لہجے میں حلیمی ہے۔ سفرِ معراج ہے، تعارف یتیمی ہے۔ فخر ہے تو اس بات پہ کہ میں اس قریش عورت کا بیٹا ہوں جو سُوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھایا کرتی تھی۔ یہ ہیں وہ عظیم سنتیں، جو آج ہر اُمتی کے لیے لائقِ حسنِ تقلید ہونی چاہئیں تھیں، بقول شاعر: اپنا کام مَیں اپنے ہاتھ سے کرتا ہوں حُبِ نبیؐ کا ایسے بھی دَم بھرتا ہوں فَاِ نَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے… اس میں لوگوں کے سمجھنے کے لیے کافی سامان ہے کہ جب زندگی میں کسی کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ان پر ثابت قدمی دکھانے اور ان سے نجات کے لیے ہمیشہ اپنے رب سے رجوع کرنے کے صلے میں اسے یقینا آسانیوں اور آسائشوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اِ نَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے… یہاں اس بات کی تائید کی جا رہی ہے کہ یہ بات محض رواروی میں نہیں کہی جا رہی بلکہ یہ امر کسی بھی شک و شبہے سے بالا ہے کہ صعوبت اور سہولت انسانی زندگی میں دھوپ، چھاؤں، نشیب و فراز اور رات، دن کی مانند ورود کرتے ہیں۔ فَاِ ذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ پس جب تُو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر… کیا خوب صورت بات ہے کہ اس بے نیاز ہستی نے ان نوازشات کا عوضانہ نہیں مانگا، کسی طرح کا صلہ طلب نہیں کیا بلکہ عبادت میں محنت کی نصیحت ہے۔ عبادت میں محنت کا سیدھا سیدھا مطلب یکجائی و یک سُوئی ہے۔ وَاِلٰی رََبِّکَ فَرْغَب٭ (سورہ نمبر: ۹۴، آیات:۸)ْ اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا… یعنی مایوسی، ناامیدی، شرک، واہمے،بے یقینی سے دامن بچا کر ہمیشہ اُسی ربِ دو جہاں سے جڑے رہو، ُپیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ‘ والے جذبے کے ساتھ۔ دوستو! اس سورہ کی تلاوت پر ہمیشہ سوچتا ہوں کہ وہ ہستی جس کے نام، کام، دوام کا خود خدائے عظیم اعلان کرے۔ وہ خیرالبشر ﷺ جس کی تریسٹھ سالہ زیست کا لمحہ لمحہ اچھائی کے فروغ، انسانیت کی فلاح، ربوبیت کی رضا، ناکارہ و تکلیف دہ رسوم کی بیخ کنی، عفو، درگزر، سادگی اوربھائی چارے کی ترویج میں گزرا ہو۔ مجھ جیسا دہقان، کج مج زبان، پنبہ دہان، خطا کار انسان، ان کی ستائش کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے؟ اسلم کولسری کی زبان میں بس اتنا کہوں گا: یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی حضورؐ کی ثنا تو پھر حضورؐ کی ثنا ہوئی