نیک نام سابق پولیس افسر‘ اسلم ترین اپنے ایک ڈی آئی جی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ بیس پچیس سال قبل وہ سینئر سرکاری افسروں اور دوسرے شعبوں کے سربراہان کو طفل نادان قرار دیا کرتے۔ جس طرح کم سن بچے نفع نقصان سے لاپروا کبھی دیا سلائی جلاتے‘ کبھی بجلی کے پلگ میں انگلی ڈالتے اور کبھی جلتا انگارا پکڑنے کی ضد کرتے ہیں۔ بعینہ قوم کی قسمت کے مالک ان افراد کا وطیرہ ہے‘ ہرگز نہیں سوچتے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ بات تو کسی اور تناظر میں ہو رہی تھی مگر موجودہ حکومت کے بعض وزیروں‘ مشیروں کی حرکتوں پر سوفیصد صادق آتی ہے۔

وفاقی وزیر‘ اعظم خان سواتی ضروری نہیں کہ قصور وار ہوں‘ پاکستان میں غربت بلیک میلنگ کا موثر ہتھیار ہے اور امارت و منصب ایک ایسا جرم جس کی تحقیق و تفتیش لازم نہیں۔ اس زمینی حقیقت سے واقفیت کی بنا پر ہمارے شعبدہ باز سیاستدان اپنی توانائیاں جہالت کی طرح غربت کو اس کے جملہ لوازمات کے ساتھ برقراررکھنے بلکہ فروغ دینے کے لیے صرف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ برساتی نالوں پر کچی آبادیاں‘ مصروف سڑکوں پر ٹھیلے‘ تنگ گلیوں اور بازاروں میں ریڑھیاں‘ خوانچے اور چوکوں‘ چوراہوں پر تجاوزات کی بھرمارکو غربت و افلاس کے نام پر جواز ملتا ہے اور ریاستی اداروں کی کارروائی ہمیشہ ظلم و زیادتی قرار پاتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزی میں ملوث گدھا گاڑی ‘ رکشہ یا موٹر سائیکل کسی قیمتی گاڑی سے ٹکرائے اور اچھا خاصہ نقصان کر دے تو الزام ہمیشہ گاڑی کے مالک اور ڈرائیور پر آتا ہے خواہ وہ کتنا ہی قانون پسند‘ بے قصور اور رحم دل کیوں نہ ہو‘ بے چارے کو سننا ہی پڑتا ہے کہ امارت کے نشے میں دھت ہے کسی غریب کی پروا نہیں۔ نقصان مایہ و شماتت ہمسایہ۔جب تک بے لاگ تفتیش کے بغیر درست صورت حال معلوم نہ ہو‘ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ متذکرہ واقعہ میں اعظم سواتی‘ ان کے صاحبزادے اور ملازمین کا قصور کتنا ہے اور فارم کے قریب رہنے والے غریب خاندان سے کس قدر زیادتی ہوئی‘ لیکن ایک غلطی تو اعظم سواتی نے بہرحال کی اس نے یہ نہ سوچا کہ اب وہ محض ایک دولت مند شہری نہیں بلکہ حکومت کا حصہ ہے جسے میڈیا کے محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے اور جس کے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار چند ہفتے قبل ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے قضیے سے بمشکل جان چھڑا پائے۔

امارت اور اقتدار کا نشہ بڑے بڑوں کی مت مار دیتا ہے‘ ورنہ اعظم سواتی ایک معمولی جھگڑے کو اتنا طول نہ دیتے ‘جومعاملہ ان کے کسی کارندے کے ذریعے تھانے اور ایس ایچ او کی سطح پر حل ہو سکتا تھا‘ اُسے آئی جی تک لے جانے اور تماشے بننے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ وزیر اعظم بار بار پولیس اور بیورو کریسی کو وزیروں‘ مشیروں اور عوامی نمائندوں کے سیاسی اثرورسوخ اور دبائو سے آزاد اور اپنے فرائض قاعدے قانون کے مطابق ادا کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر راجن پور اور چکوال کے ڈی سی اوز نے منتخب عوامی نمائندوں کی ٹیلی فون کالز کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن قصور اکیلے اعظم سواتی کا بھی نہیں‘ عمران خان نے بھی موصوف کے واٹس ایپ میسج سے متاثر ہو کر آئی جی اسلام آباد کی تبدیلی کا حکم صادر کر دیا اور بھلا دیاکہ وہ چند روز قبل پولیس اور سول بیورو کریسی کو کسی ایم پی اے‘ ایم این اے اور وزیر مشیر کی سفارش نہ ماننے اور اپنے فرائض منصبی طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت ادا کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ فعال عدلیہ اور مُنہ زور میڈیا کی موجودگی میں ایک غریب خاندان(جو شائد قصور وار بھی ہو) کوحوالہ زنداں کرانے سے قبل اعظم سواتی نے سوچا نہ آئی جی کی تبدیلی کا حکم صادر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو احساس ہوا کہ بات کا بتنگڑ بنتے دیر نہیں لگے گی اور یہ معمولی واقعہ حکومت کو ندامت سے دوچارکریگا۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ترنگ میں آ کر کہہ دیا کہ اگر وزیر اعظم آئی جی کو معطل نہیں کر سکتا تو الیکشن کرانے کا کیا فائدہ؟کاش وزیر موصوف جان پاتے‘ منتخب وزیر اعظم    ع

صنوبر باغ میں آزاد بھی پابہ گل بھی ہے

کا استعارہ ہوتا ہے اور اس کے لیے شاعر مشرق کا مشورہ یہ ہے کہ          ع

انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

میاں نواز شریف کے اسی انداز حکمرانی کو عمران خان شاہانہ قرار دے کر اپنے کارکنوں کا خون گرماتے‘ قانون کی حکمرانی کا سبق پڑھاتے تھے۔ قانون کی حکمرانی میں تو حکام کے ہر فیصلے کو قواعد و ضوابط اور آئین کی کسوٹی پر پرکھا‘ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکم اور فیصلہ عوامی مفاد میں جاری ہوا یا کسی ذاتی و سیاسی منفعت‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور بدنیتی کا آئینہ دار ہے؟۔ بجا کہ عدلیہ بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز اور حکومتی اتھارٹی کو پامال کرتی ہے‘ مگر جارحانہ عدالتی فعالیت کے دنوں میں یہ انتظامیہ اور مقننہ کا فرض ہے کہ وہ نزاکتوں کو ملحوظ رکھے‘حد درجہ محتاط رہے اوراپنی رسوائی کو دعوت نہ دے۔ میاں نواز شریف 2013ء میں برسر اقتدار آئے تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا طوطی بول رہا تھا۔ چیف صاحب کی ریٹائرمنٹ تک میاں صاحب نے بیوروکریسی کو جوں کا توں رکھا اور عدلیہ کو مداخلت کا موقع نہ دیا مگر موجودہ حکمران اپنے آپ کو اس تکلف سے آزاد سمجھتے اور ہزیمت اٹھاتے ہیں۔ یہ محض ناتجربہ کاری ہے؟ عدالتی فعالیت اور منہ زور ریگولر و سوشل میڈیا کی مخاصمانہ روش سے ناواقفیت ؟یا بچگانہ انداز فکر؟ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر ایک کے بعد دوسرے ناخوشگوار واقعہ کا ظہور اور وزیروں‘مشیروں کی ناعاقبت اندیشی سے نووارد حکومت کا امیج بُری طرح مجروح ہو رہا ہے اور اس کے خیر خواہوں کے پاس وضاحتوں کے لیے ذخیرہ الفاظ کم پڑنے لگا ہے۔ ناقص کارگزاری پر آئی جی اسلام آباد کو وقوعہ سے قبل بدلنے میں حرج کیا تھا اور وقوعہ کے بعد چند روز مزید صبر و برداشت کا مظاہرہ نہ کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ حکومت کو اپنے پائوں جمانے اور دھاک بٹھانے کے لیے وقت ملنا چاہیے ‘عدلیہ حکومتی مجبوریوں کا احساس کرے ‘مگر حکمران طبقہ خود بھی تو اپنے پیشروئوں سے سبق سیکھے‘ اپنے دعوئوں کی لاج رکھے اور قانون کی حکمرانی کا تاثر گہرا کرنے کے لیے تلون مزاجی پر قابو پائے۔ آخر عمران خان بار بار غلطیوں سے ندامت کے مواقع پیدا کرنے والے مشیروں سے جان چھڑا کر اپنا حلقہ مشاورت وسیع کیوں نہیں کرتے؟ یہ سوچنے میں آخر کیا حرج ہے کہ خیبر پختونخوا جیسے مختلف المزاج صوبے میں حکمرانی آسان تھی وفاق اور پنجاب میں پارلیمانی پارٹیوں‘ پولیس اور بیورو کریسی سے نمٹنا کافی مشکل۔ خاص طور پر جب حکومت مخلوط ہو‘ ارکان اسمبلی سفارش اور ترقیاتی فنڈز کے خوگر‘ معیشت روبہ زوال اور پولیس و بیورو کریسی تین چار عشروں سے کام چوری‘ لوٹ مار اور لاقانونیت کی عادی۔ اعظم سواتی نے حماقت کاخمیازہ بھگتا ‘عمران خان کو بھی مشکل میں ڈالا مگر اب بھی گرے بیروں کو سنبھالنا مشکل نہیں بشرطیکہ آئندہ ایسی غلطیاں نہ دھرانے کا عزم ہو‘ کمسن بچوں کی طرح بجلی کے پلگ میں انگلیاں گھسانے کی عادت ترک کریں۔