’دیر آید درست آید ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سیاسی بنیادوں پر تعینات کیے گئے سفیروں کو واپس بلانے کا اچھا فیصلہ کیا ہے ۔لگتا ہے اس شعبے میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کا ہوم ورک نہیں تھا ۔اسی بنا پر جن سفیروں کو تبدیل کیا جا رہا ہے انھیں حکومت تبدیل ہونے کے باوجود کام جاری رکھنے کا کہا گیا تھا۔ماضی کی سیاسی وفوجی حکومتیں اپنی من پسند شخصیات کو نوازنے کے لیے دنیا کے پرکشش دارالحکومتوں میں سفیر مقرر کر دیتی تھیں ۔ضروری نہیں کہ سیاسی بنیادوں پر مقرر کیے گئے سفیر حکومت کے منظور نظر ہی ہوں لیکن بعض ممالک میں ایسے اہل افراد جو واقعی پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھا سکتے ہیں بھی مقرر جاتے رہے ہیں۔ان میں بعض اوقات وزارت خارجہ سے ہی ریٹائر ہونے والے افسروں کو ہی سفیر مقرر کیا جاتا رہا اور بعض جگہ ریٹائر جرنیل بھی تعینات کیے گئے۔ ماضی میں صحافیوں کو بھی سفیر مقرر کیا گیا جیسا کہ برادرم عطاء الحق قاسمی نارووے اور پھر تھائی لینڈ میں سفیر بنائے گئے۔ محترمہ ملیحہ لودھی نیویارک میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ہیں وہ اس سے پہلے دو مرتبہ امریکہ میں سفیر رہنے کے علاوہ برطانیہ میں بھی ہائی کمشنر رہ چکی ہیں ۔لیکن کنٹریکٹ پر متعین کیے گئے سفیروں کو سیاسی تقرری ہی کہا جاتا ہے ۔ عمومی طور پر کسی میرٹ کے بغیر لگائے گئے سفیروں کی وجہ سے وزارت خارجہ میں بد دلی پھیلتی ہے کیونکہ فارن سروس میں کام کرنے والے خواتین وحضرات کا مطمع نظر بجا طور پر سفیر بننا بھی ہوتا ہے۔گزشتہ دور حکومت میں کئی منظور نظر افراد نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جس کی واحد کوالیفکیشن’ قرب شاہ‘ تھی ۔ اسی ریت کی بنا پر نجی شعبے اور دنیائے صحافت سے بہت سے افراد ’ہزایکسی لینسی اور ہر ایکسی لینسی ‘ کہلوانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک نوجوان بزنس مین کو جن کی فیملی کا صنعت وتجارت میں بہت بڑا نام ہے، امریکہ میں سفیر مقرر کر دیا ۔کہا جاتا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کا بزنس گروپ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ائیر لائنز میںحصہ دار ہے ۔موصوف کا سفارتکاری میں کوئی تجربہ نہیں ،تاہم ان کا طرہ امتیاز یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے دوست ہیں ۔ان کو تعینات کرنے سے پہلے جب اس بارے میں اعلیٰ سطح پر مشاورت کی گئی تو زیادہ تر لوگوں نے ان کا نام بھی نہیں سنا ہوا تھا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے ان سفیر برائے واشنگٹن کو نیب نے طلب کر رکھا ہے۔ اب ایسا شخص ایسے مرحلے پر جبکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہونے کے علاوہ انتہائی نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں جو شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھے کیا سفارتی ہنر مندی دکھا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اکیلا سفیر اپنی تمام قابلیت اور محنت کے باوجود دوطرفہ تعلقات پر ایک حد تک ہی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ تاہم علی جہانگیر صدیقی جو مئی میں تعینات ہوئے تھے نے اس عرصے میں کون سا گل کھلایا‘ اب ان کی جگہ فارن سروس کے ڈاکٹر اسد مجید کو سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ کچھ یہی حال کینیڈا میں ہائی کمشنر طارق عظیم کا ہے جو مسلم لیگ (ق) سے مراجعت کر کے نواز لیگ میں آئے تھے۔ان کو شاید اس لیے نوازا گیا کہ وہ شجاعت عظیم کے بھائی ہیں جو نوازشریف کے سابق دور حکومت میں وزیراعظم کے مشیر برائے ہوا بازی تھے، انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر اس لیے فارغ کر دیا گیا تھا وہ دوہری شہریت کے حامل تھے ۔وہ میاں صاحب کے اس لیے فیورٹ تھے کہ وہ ایک زمانے میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کے طیارے کے پائلٹ تھے اور رفیق حریری نے 2000ء میںمشرف دور میں سعودی عرب اور قطر کے ساتھ مل کر میاںنوازشریف کو جیل سے جدہ بھجوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس معاملے میں شجاعت عظیم بہت مددگار ثابت ہوئے تھے ۔میں 2016ء میں میاںنوازشریف کے ساتھ قطر کے دورے پر گیا تو ایک نوجوان دوحہ میں پاکستان کا سفیر تھا۔اس بارے میں جب میں نے میاںنوازشریف کے مشیر برائے خارجہ امور طارق فاطمی سے استفسار کیا کہ یہ صاحب کون ہیں اور آپ کی چوائس ہیں تو انھوں نے کہا خدانخواستہ میں ایسے شخص کو کیوں سفیر مقرر کرتا۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ سفیر موصوف دبئی میں ایک بینکر کے صاحبزادے ہیں ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بہت سے حضرات جو صرف اور صرف نوازشریف سے قربت کی بنا پر سفیر تعینات ہوئے حکومت کی تبدیلی کے باوجود یہ کہہ کر کہ حضور ہمارے لیے کیا حکم ہے اپنے عہدے سے چمٹے رہے۔ حالانکہ اصولی طور پر سیاسی بنیادوں پر مقرر کیے گئے سفیر حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی سبکدوش تصور کیے جاتے ہیں ۔جن کا شمار سابق وزیراعظم کے ’انرسرکل‘میں ہوتا تھا انھیں تو خود ہی گھر آ جانا چاہیے تھا ۔ بحث کی خاطر تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انداز سے غلط بخشی کے طور پر سفیر لگائے جاتے ہیں گویا کہ سفیر کا عہدہ محض نمائشی ہوتا ہے لیکن حقیقت میں سفیر کے ذمے بہت کام ہوتا ہے بالخصوص ان ممالک میں جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اتنے دوستانہ اور قریبی نہیں یا کشیدہ ہیں۔ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو اپنا کام کرنے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔اسے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن سفیر کا ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود نئی دہلی میں پاکستان کا مقام بنانا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔اسی طر ح افغانستان میں بھی سفیرکو انتہائی دشوار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں جہاں کانگریس اور لابیسٹ کے کردار کو سمجھے بغیر موثر کردار ادا نہیں کیا جا سکتا لیکن سیاسی طور پر مقرر کردہ سفیروں کی بھی اپنی اپنی ادا ہوتی ہے ۔ سفیروں کا کام جن ملکوں میں تعینات ہوں ان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط کو فروغ دینا بھی ہوتا ہے۔امریکہ میں جب سیدہ عابدہ حسین کو نوازشریف نے سفیر متعین کیا تو ان کا خیال تھا کہ وہ بڑی کامیاب رہی ہیں کیونکہ وہ خود بھی ایک بہت بڑی فارمر ہیں اور کانگریس کے ارکان کی اکثریت بھی زراعت سے تعلق رکھتی ہے ۔ان کے بعد جب ڈاکٹر ملیحہ لودھی جو صحا فی ہونے کے علاوہ خالصتا ً اکیڈمک بھی ہیں سفیر بنیںتو سیدہ عابدہ حسین نے ان سے ملاقات میں طعنہ دیا کہ آپ یہاں کبھی کامیاب نہیںہو سکتیں کیونکہ آپ کے کانگریس کے ارکان سے وہ رابطے نہیں ہو سکتے جو میرے تھے ۔بہرحال اس کے باوجود ملیحہ لودھی کا شمار ان سفیروں میں ہوتا ہے جو واشنگٹن میں بھرپور طریقے سے نمائندگی کر پائیں ۔ سیاسی بنیادوں پر سفیروں کی تعیناتی اور اس میں قباحتوںکی بہترین مثال آصف زرداری کے دور میں حسین حقانی کا تقرر تھا ۔حقانی صاحب بھی صحافت سے ہوتے ہوئے اکیڈمک ہوئے اور بالآخر سفیر مقرر ہو گئے ۔ وہ ’میمو گیٹ ‘ کے حوالے سے خاصے متنازعہ بن گئے اور انھیں اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ کنٹریکٹ پر مقرر کردہ سفیر عمومی طور پر خود کو ملک سے زیادہ ان پر نوازش کرنے والی سیاسی شخصیت کے مرہون منت ہوتے ہوئے اورخود پاکستان سے زیادہ ان کے ساتھ وفاداری نبھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نمایاںشخصیات کے لیے سفیر بننا شجر ممنوعہ ہے ۔ پیپلزپارٹی کے دور میں حسین ہارون اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مقرر کیے گئے تھے۔ موصوف انگریز وضع قطع کے باوجود واجبی تعلیم یافتہ تھے ۔انھوں نے سفارت کے خوب مزے لوٹے لیکن 2013ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد انھوں نے بلاول ہاؤس کا رخ تک نہ کیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی عام انتخابات میں شکست کھانے والے ممتاز دولتانہ کو برطا نیہ میں سفیر مقرر کیا تھا۔اسی طرح صاحبزادہ یعقوب خان جو بعدازاں وزیر خارجہ بھی بنے، امریکہ میں انتہائی کامیابی کے ساتھ سفارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو سفیر مقرر کرتے وقت جوتیوں میں دال نہیں بانٹنی چاہیے اسی لیے شاہ محمود قریشی کا یہ فیصلہ سفارتکاری کے میدان میں بہتر نتائج مرتب کرے گا اور اس سے وزارت خارجہ جو نوازشریف کے دور میں باقاعدہ وزیر خارجہ نہ ہونے کی بنا پر اور سیاسی بنیادوں پر اہم دارالحکومتوں میں سفیروں کی تقرریوںکی بنا پر تقسیم ہوگئی تھی کا مورال بلند ہونے میں مدد ملے گی۔