کوئی خبر اب خبر نہیں، ہر خبر اب خبر ہے، آزادی کے 76 سال بعد اگر وزیر اعظم بتا رہے ہیں: "آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث پیٹرول کی قیمتیں بڑھائیں، آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہوتا تو ملک میں تباہ کن صورتحال ہوتی، ملک ڈیفالٹ ہوجاتا تو ادویات نہ ہوتیں، خشک دودھ نہ ملتا". اس پر بحیثیت پاکستانی افسوس کے سوا کیا کرسکتے ہیں، اتحادیوں کے اعزاز میں دیے گئے عشایے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 16 ماہ میں بے پناہ چیلنجز کا سامنا تھا، اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسائل کو حل کیا، راستے میں پہاڑ جیسے مسائل آئے لیکن قافلہ چلتا رہا، معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے؛ پہاڑ جیسے مسائل اسی حکومت نے پیدا کیے اور یہی 13 جماعتوں کی حکومت 16 ماہ تک ان مسائل کی پرورش کرتی رہی۔ اتحادی جماعتوں کے 87 کے لگ بھگ اراکین کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنانا بحران زدہ معیشت کے دور میں کس کا جرم تھا؟ پی ڈی ایم حکومت کا یا پی ٹی آئی کا؟ وزیر اعظم عالمی مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے یہ تو کہہ دیا کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر تکلیف ہوتی ہے لیکن کیا کریں مجبوری ہے، عالمی مہنگائی کے حوالے سے یہ بدترین دور تھا، کیا کبھی کوئی وزیر اعظم قوم کو بتائے گا کہ عالمی سطح پر ترقی کے دور میں مادر وطن نے کتنی ترقی کی! ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، ذہین دماغ بھی وافر تعداد میں دستیاب ہیں، ہماری جغرافیائی حیثیت بھی انتہائی شاندار ہے، وسطی ایشیاکی ترقی کی صدی میں ہمارا مقام بہت بلند ہے تو پھر ایسی بحران زدہ معیشت، مہنگائی اور بے یقینی کا دور دورہ کیوں ہے؟ عالمی سطح پر کون ہے جو پاکستان کو ترقی کرتے دیکھ نہیں سکتا؟ یہ خبر بھی اب کوئی خبر نہیں اور ہر خبر جو اب خبر ہے، اس پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں، بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے اور کروانے کا بے رحمانہ کھیل 76 برسوں بعد بھی اگر جاری رکھنا حکمرانوں کی خواہش ہے تو آئندہ کا منظرنامہ دھندلا ہے۔ ظاہر ہے کہ قوم کو سمت دینے کی صلاحیت سے محروم حکمران ٹولا اس کی متعین کردہ سمت کو بھی ٹیڑھا میڑھا کرنے کی کوشش کرے گا ۔ پھر چند ماہ قبل اور حالیہ دنوں میں پی ڈی ایم کے بیشتر سابق وزراکی زبانی انتخابات کے التواکی بابت بیانات کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے، سابقہ پی ڈی ایم حکمران اپنی کارکردگی کے ڈھول پیٹنے کی جستجو میں چاہے زمین و آسمان کے قلابے آپس میں ملا دیں، بات بنتی نظر نہیں آتی، اندازہ کیجئے؛ 16 ماہ جس سیاسی مخالف کو دیوار سے لگانے میں ناکام رہے، اقتدار کی رخصتی سے قبل اسے پابند سلاسل کر دیا گیا لیکن اس قیدی کا سارا نظام قید معلوم ہوتا ہے، آہ! وطن عزیز کی سب جماعتیں اس حقیقت کو فراموش کر گئیں کہ آج کی ہر خبر مستقبل میں خبر نہ رہے گی، مورخ کا قلم آخر صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے، تادیر ہوتا ہے، صدیوں ہوتا ہے اور مستقبل کے ہاتھوں میں تھامے قلم اس پر سیاہی بہاتے رہتے ہیں، حکمرانوں کے طرز سیاست، طرز حکمرانی حتی کہ ذاتی عادات پر انکے نائب قاصدوں کی بابت کئی کتب لکھی جاچکیں، گلوبل ولیج کے اس دور میں بات کیسے در و دیوار تک محیط رہے گی؟ مگر المناکی جداگانہ ہے! ترقی کی تڑپ نسل نو کے وجود کو بیتاب و بے چین کیے ہوئے ہے، اس تقاضے کو اپنی معاشرتی حدود و قیود، تہذیب و تمدن کے دائر کار اور آئینی و قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پورا کیے بغیر آئندہ کوئی چارہ کار نہیں، یقین نہ آئے تو وطن عزیز سے بیرون ملک جانے والے ہنر مند نوجوانوں کا ڈیٹا جھانٹ لینا بہتر ہوگا، ترقی کے نعروں اور سڑکوں پلوں کی تعمیر قومی و ملی ترقی کے ضامن منصوبے نہیں ہوسکتے۔ حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنا وطیرہ تبدیل کرنا ہوگا، چند روز قبل جانے والی حکومت سیاست کی رسیا سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کیلئے کسی عبرت سے کم نہیں، جن کے پاس اختیارات تو تھے لیکن عوامی مینڈیٹ نہیں تھا، سو ان حکمرانوں نے ہر وہ کام کیا جو عوامی مینڈیٹ سے محروم حکمران کیا کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نیب قوانین میں ترامیم جیسے اقدامات سے اپنے کرپشن کے تمام کیسزمعاف کروا لیے، کرپشن کے کیسزمیں مطلوب لوگ سرکاری جہازوں پر وطن واپس لوٹ کر معیشت کی ترقی کے نعرے لگاتے رہے، معیشت ابتری کے سوال پر صحافیوں کو تھپڑ رسید کیے جاتے رہے جبکہ کارکردگی ایسی کہ ملکی تاریخ میں ایسے نامساعد حالات کا سامنا نہ کرنا پڑا، نیب قوانین کی ترامیم سے دل نا بھر سکا تو ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا بل منظور کیا گیا، جسکے تحت سپریم کورٹ کے از خود کیسز کے فیصلوں پر نظر ثانی اپیل کا حق نواز شریف کو میسر آسکتا تھا، جسے سپریم کورٹ کے سامنے آنے والے تفصیلی فیصلے میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اور وزیر اعظم افسوس کا اظہار کرنے سے بھی نہ کترائے، کہا اسمبلی موجود ہوتی تو منظوری حاصل کر لیتے، ان حالات کا تعلق بلاشبہ چیئرمن پی ٹی آئی سے نہیں، جن سے جوڑ کر ہر معاملے پر اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش کرتے کرتے پی ڈی ایم سرکار نے 16 ماہ برباد کر ڈالے، پوری قوم ان حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ ہے صدحیف تاوقت ریویوآف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دئیے جانے پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ سوچتے بھی نہیں کہ تحلیل ہونے والی پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی کے 5 سالہ دور میں مجموعی طور پر 52 اجلاس ہوئے، جس میں سے آخری اجلاس سے قانون سازی کے حوالے سے گزشتہ 51 اجلاسوں کا ریکارڈ توڑ دیا گیا، سابقہ قومی اسمبلی کے 52 ویں اجلاس میں ریکارڈ قانون سازی کی گئی اور 77 بل منظور کیے گئے، اتنی قانون سازی اور بلوں کی منظوری اسی اسمبلی کے 51 اجلاسوں میں نہیں ہوسکی تھی، کاش کوئی ان دیوانوں کو سمجھاتا: کوئی خبر اب خبر نہیں، ہر خبر اب خبر ہے!!! ٭٭٭٭٭