قلم کی شہنشاہیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور لوح وقلم کا تذکرہ ہمیں یقین دلا رہا ہے کہ قلم، علم وآگہی کا وسیلہ ہے۔ قلم کی اہمیت ہر زمانے میں سکہ رائج الوقت کی سی رہی ہے۔ یہ قلم جب قرطاس ابیض پر خونِ جگر سے موتی پِروتا ہوا نظر آتا ہے تو اس کی شان اور نکھر جاتی ہے ۔تاریخ کے کھنڈرات میں قلم کے ایسے نشانات درج اور ایسے نقوش ثبت ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل کو پسینہ آ جاتا ہے، دماغ محو حیرت نظر آتاہے اور دل کی دھڑکنیں کپکپانے لگتی ہیں۔ صحافت نے اپنی کوکھ سے سچائی کو جنم دیا ہے جس کو تاریخ نے اپنے آغوش میں محفوظ کر لیا ہے ۔ اس نے قوموں جرات اوربہادری کا وہ طوفانِ بلا خیز برپاکیا ہے ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ وطن عزیزپاکستان کی صحافت ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اوراس نے مختلف جگہوں پرڈیرے جمالئے ہیں۔وہ غیر جانبداری کی راہ سے بٹھک چکی ہے اوروہ جانبدار بن کر اپنا ایک الگ ہی تعارف کروا رہی ہے ۔یہ فلاں جماعت کا صحافی ہے اور وہ فلاں دھڑے کا۔ آج بالعموم یہی پاکستان کی صحافت کا تعارف ہے ۔ یہ تقسیم اس قدر ہوچکی ہے رات کے ٹی وی ٹاک شوز کودیکھنے کے لئے لوگ جب ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں تووہ کئی صحافیوں یااینکروں کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے اورفوراََچینل تبدیل کرجاتے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کا جانبدار بن جانا اور غیر جانبدار نہ رہنا ہرگز کوئی نیک شگون نہیں ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر صحافت جیسے مقدس پیشے کو پیٹ کے پجاریوں ، نام نہاد صحافیوں نے بدنام اور بے اعتبار کردیا ہے۔ صحافت اورصحافیوں کو بے اعتبار بنانے میں ان ضمیر فروشوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جوغیرجانبدارانہ طرز عمل سے تہی دامن ہیں۔ حقائق کو واضح کرکے آئینہ دکھانے والے ہوں، حکمرانوں اوراپوزیشن کے لیڈروںکے کردار وعمل کاپوسٹ مارٹم کرنے والے ہوں، سیاسی ایوانوں اورمعاشرے کے کونوں ،کھدروںسے چن چن کر سچی خبریں لینے والے اورسچائی تک رسائی پانے کے لئے جان کی بازی لگاتے ہوئے رپورٹنگ کرنے والے جانباز ہوں ۔ سیاست کاروں سے تیکھے سوالات پوچھنے والے نڈر رپورٹر، حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے والے صاف گو ، بے خوف، دلیر، بہادر، جری، جرات مندرائٹر، حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے والے نقاد صحافی ہوں۔گندے لوگوں کے ذریعے معاشرے میں پھیلائے جانے والے گند،بدکاری اورحرام امورکے اڈوں کو بے نقاب کرتے ہوں۔معاشرے میں ظلم کرنے والے ظالموں کی بروقت نشاندہی اورانصاف کابول بالاکرنے والے ہوں۔ ظالم کے خلاف اورمظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے والے ہوں۔ جو صحافی خبروں میں مرچ مصالحہ لگا کر قوم میں بدامنی، انتشارپھیلاتا ہے ۔ ایسے نام نہاد صحافیوں میں سے بعض حکومت اوربعض اپوزیشن لیڈروں کی آنکھوں کا تارا ہوتے ہیں۔ دراصل یہ صحافی نہیں ہوتے۔ان کا کام ہی یہ ہوتاہے کہ خبروں میں مرچ مصالحہ لگا کر، جھوٹی اور افواہوں پر مبنی خبروں کو ذیابیطش زدہ زبان سے میٹھا کرعوام الناس کے مابین تفریق پیدا کریںیہ آپس میں نفرت و دشمنی کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں، دو عوام کی فصیل میں نقب لگاکردراڑیں پیدا کرکے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ملک میں فساد و بدامنی کا سبب بنتے ہیں۔ صحافت سے وابستہ کچھ لوگ سیاسی لیڈروں کے سامنے طائفہ بن بیٹھے ہیں اورعہد ماضی کی طرح حکمرانوں کی شان میںکے قصیدہ خوانی سے اپنی جیبیں بھرلیتے ہیں، جانبداری سے کام لیتے ہوئے معاشرے کو ورغلاتے ہیں، وہ جھوٹے اورفرسودہ بیانئے کی پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں۔ایساکرنے سے وہ یقینا جھوٹے اور صحافت سے غداری کرنے والے ،حقائق چھپا کر آئینہ پر گرد وغبار ڈالنے والے ،بلیک میلر ثابت ہو رہے ہیں ۔ہم نہیں کہتے کہ ایک صحافی کوغربت اورافلاس میں زندگی بسرے ،وہ عالیشان زندگی گزارنے کا بھرپورحق رکھتاہے ،لیکن وہ ہرگزپولیس تھانوں کے ایس ایچ اوزکے دوست، لیڈر پرست، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا حامی ،اپوزیشن کے ایجنٹ، کمیشن خور، پٹھو،تابع فرمان نہ ہو ۔ صحافی سچا، حق گو، حقیقت شناس، خبروں کو انصاف سے نشر کرنے والے، منصف مزاج ہوں۔ سچائی لکھنے اورسچ بولنے کی پاداش میں جیل جانے کے لئے تیارہوں، اپنے بے باکانہ کردارعمل کے باعث سیاست کاروںکی آنکھوں میں کھٹکنے والے، حکومت کے دام ہمرنگ زمین میں پھنس نہ جانے والے اوران کی چالبازیوں کا شکارنہ ہونے والے ہوں ، وہ حالات حاضرہ سے کلی طورپر باخبر ہوں اور حقائق پران کی نظر ہو۔ اپنے مضامین ، تجزیوں اور تبصروں سے حقیقت واشگاف کرنے والے، فرضی کہانیوںکوبے نقاب کرنے والے اعلیٰ درجے اوربلند کرداروالے ہوں ۔جناب سچے کردارعمل کے حامل ایسے صحافیوں اورایسی صحافت پرمعاشرہ اور عوام اعتبار،اعتماداوربھروسہ کرتے ہیں۔بلاشبہ ایسے صحافیوں کومعاشرے میں عزت وتوقیرمل جاتی ہے اورمعاشرے کاہرفردانکے ساتھ بے پناہ محبت کرتاہے۔لیکن افسوس صد افسوس ایسے کرداروعمل کے حامل صحافیوں کی تعداد قلیل ہے۔ ایسے صحافی صحافت کی لاج رکھنے والے ہیں جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں، جو جھوٹے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے کے خوگر ہیں ۔ انتہائی کم تعداد میں ہونے کے باوجود بھی لیکن وہ اپنے مشن میں کامیاب ہیں۔