فیض صاحب کے ایک فقرے نے بڑی شہرت پائی احباب کے درمیان گپ شپ ہو رہی تھی کہ کسی نے پوچھ لیا‘ فیض صاحب‘ پاکستان کا کیا بنے گا۔ انہوں نے اپنے مخصوص طریقے سے ذرا توقف کیا اور ایک انداز بے نیازی سے کہا کہ بھئی ہمارے خیال میں تو یونہی چلتا رہے گا کس کو اندازہ تھا کہ ایک شاعر کا یہ فی البدیہہ ’’مصرعہ‘‘ ہمارے آنے والے دنوں کی تاریخ بن جائے گا۔ ہم بار بار خواب دیکھتے ہیں ایک آئیڈیلزم کا شکار ہوتے ہیں‘ پھر اسی ڈگر پر چل نکلتے ہیں جسے بدلنے کا عزم لے کر ہم میدان میں اترے تھے۔

مرا یہ طریق نہیں کہ جو ٹی وی پروگرام کروں‘ اسے کالم بنا دوں۔ مگر اس بار ایک عجب اتفاق ہوا۔ ملک میں بہت سارے واقعات ہو رہے تھے جن پر گفتگو چل رہی تھی۔ ارادہ تھا کہ اس پر گرما گرم بحث کرائوں گا۔ اچانک جانے کیا ہوا کہ اسے واقعاتی روپ میں پیش کرنے کے بجائے مرے دل میں اس نے ایک سوال کی صورت میں انگڑائی لی پھر سارا پروگرام اسی پر چل نکلا۔

یہ جو اعظم سواتی کا معاملہ اٹھا ہے اس نے ایک سوال پیدا کر دیا ہے۔ سواتی صاحب وزیر ہیں اور بڑے بااثر شخص ہیں ان کے فارم ہائوس پر کوئی جھگڑا ہوا اور ان کے صاحبزادے نے ایف آئی آر کٹوا کر ایک غریب خاندان کے تمام افراد کو اندر کرا دیا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک بارہ سال کا بچہ اور خواتین بھی تھیں۔ ایک طرح کے نیم متمدن معاشرے میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ میں اس خاندان کی دکھ بھری کہانی نہیں سنا رہا کہ ان کے گھر رات کو فاقہ ہوا کہ باقی رہ جانے والوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ کھانے کا بندوبست کرتے۔ یہ الگ معاملہ ہے مگر اس پر قیامت یہ آئی کہ سواتی صاحب نے طوفان کھڑا کر دیا کہ آئی جی اسلام آباد ان کی شکایت نہیں سن رہا تھا۔ انہوں نے جانے کتنے فون کھڑکائے حتیٰ کہ وزیر اعظم تک بھی جا پہنچے۔ وزیر اعظم صاحب نے اس پر آئی جی اسلام آباد کا فوری تبادلہ کر دیا۔ یہ بات عام ہوئی تو سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لے کر سیکرٹری داخلہ کو طلب کر لیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے تو اس تبادلے کے اطلاع ہی نہیں ہے۔ آئی جی براہ راست سیکرٹری داخلہ کو جوابدہ ہوتا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں اس کی خبر ہی نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکرٹری کو طلب کر لیا کہ تبادلہ انہی کے حکم سے ہوا تھا اور اصول بھی یہی ہے۔ ان کی طرف سے اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ تبادلہ وزیر اعظم کے زبانی حکم پر کیا گیا ہے۔

بس اس پر قیامت اٹھ کھڑی ہوئی۔ وفاقی سیکرٹریوں کی سرزنش ہوئی کہ وہ اپنی عقل بھی استعمال کریں۔ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیں۔ آئی جی کا تبادلہ سپریم کورٹ نے منسوخ کر دیا۔ ساتھ ہی یہ ریمارکس دیئے کہ اس سے پہلے پنجاب کے آئی جی کو تبدیل کیا گیا تھا جنہیں اسی حکومت نے صرف ایک ماہ دو دن پہلے تعینات کیا تھا۔ اس سے پہلے پاکپتن کے ڈی پی او کے نصف شب کو تبادلے کا معاملہ پیش آیا تھا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آیا حکومت ایسے چلے گی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ اگلے دن دو وضاحتیں آئیں ایک تو فواد چودھری کی طرف سے جن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اگر آئی جی معطل کرنے کا اختیار نہیں ہے تو الیکشن کس لئے کرائے جاتے ہیں۔ چند بیورو کریٹس کے ذریعے حکومت چلا لیں۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ آئی جی کی یہ مجال کہ وہ وفاقی وزیر کا فون نہ سنیں ۔ ایک اور صاحب جو بڑے دھیمے انداز میں بات کرتے ہیں‘ فرمانے لگے وزیر اعظم کیا کوئی کلرک یا پی آر او ہے جو تبادلہ بھی نہیں کر سکتا۔ وہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے چیف ایگزیکٹو۔

لاہور کے واقعے بعد بھی یہ بیانیہ سامنے آیا تھا کہ افسر شاہی حکم نہیں مانے گی تو انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔ پالیسی دینا حکومت کا کام ہے۔ بیورو کریسی کا کام اس پر عمل کرانا ہوتا ہے۔ یہ بحث تو یہیں چھوڑے دیتے ہیں کہ پالیسی کہتے کسے ہیں۔ اس پر ناصر درانی صاحب جو پنجاب میں پولیس ریفارمز کی وجہ سے لائے گئے تھے انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ناصر درانی خیبر پختونخواہ میں آئی جی تھے۔ انہیں اس ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کہ ہم نے پولیس کو خود مختار کر دیا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کر دی انہیں تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار دے دیا۔ اب وہ کام کرنے میں آزاد ہیں۔ وہ سیاستدانوں کے اشاروں پر چلنے کے پابند نہیں۔ اس سے پولیس نے نتائج دیے ہیں اور دے گی۔ یہی تجربہ اب پورے ملک میں کیا جائے گا۔ مگر یہ دعویٰ تو پہلے مرحلے میں ناکام ہو گیا اس سے پہلے پاکپتن والے واقعے نے تو کار سرکار میں مداخلت کا بھانڈا پھوڑا دیا تھا۔

اب یہاں سے سیاسی بیان بازی شروع ہو جائے گی۔ میں اس میں الجھنا نہیں چاہتا یہ مرا مقصد نہیں ہے مرا مسئلہ یہ ہے عمران خاں نے ایک خواب دیکھا تھا‘ ایک آئیڈیلزم کی تشکیل کی تھی جسے ایک نسل نے اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ اس حوالے سے ان کے بہت سے بیانات ہیں ۔اس موقع پر قائد اعظم کی اس تقریر کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے سول سروس کے افسروں سے مخاطب ہوتے ہوئے صاف صاف کہا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کریں۔ ایک جگہ تو شاید یہ بھی کہا تھا کہ تمہارا قائد اعظم بھی غلط حکم دیتا ہے تو اس پر عمل نہ کریں۔ تو کیا سمجھ لیا جائے عمران نے بھی یہ خواب الیکشن کے ہنگام میںدکھائے تھے یا ان میں کوئی سچائی کا عنصر تھا۔

مرا خیال ہے عمران یقینا اس کام میں مخلص تھا اور مخلص ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ زمینی حقائق کچھ دوسری شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ساری ہدایات کے باوجود اس آئیڈیلزم کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ اب سنا ہے کہ منتخب ارکان پارلیمنٹ دہائی دیتے ہیں کہ ان کی کوئی سنتا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس بار لاہور آمد کے موقع پر انہوں نے بیورو کریسی کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کی باتوں پر کان دھریں۔ انہیں شاید یہ گمان گزر رہا ہے کہ بیورو کریسی انہیں ناکام کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے سول سروس کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ انہیں اندیشہ پیدا ہوا ہے کہ یہ بیورو کریٹ خود سر ہو گئے ہیں۔ ان کو یہ بھی سمجھایا جاتا ہے یہ پرانی حکومتوں کے وفادار لوگ ہیں۔ انہیں ذرا شکنجے میں کسا جائے، وگرنہ نظم حکومت نہیں چل سکے گاآئیڈیلزم اپنی جگہ مگر اس سے کام نہیں چلے گا۔ طے پایا تھا کہ اراکین اسمبلی کو براہِ راست فنڈز نہیں دیئے جائیں گے۔ اب سنا ہے وہ بھی دیئے جا رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام بن نہیں پا رہا۔ کہا جاتا تھا ہم اختیارات نچلی سطح پر منتقل کریں گے۔ سارے ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں سے کروائیں گے۔ وزیر اعظم نے 48گھنٹے کی مہلت دی تھی کہ یہ نظام وضع کریں۔ مجھے اس کے نہ ہونے کا اتنا یقین تھا کہ میں نے لکھ دیا تھا کہ خدا کرے ایسا نہ ہو پائے۔ کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ اس میں بڑی مشکلات ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کے نتیجے کے طور پر کیا کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے موجودہ بلدیاتی اداروں کو حکومت اختیارات نہ دینا چاہتی ہو۔ اس کا خیال ہو کہ یہ تو پرانوں کے ساتھی ہیں اور ان اداروں کو توڑ کر فوراً نیا نظام نافذ کرنا ایک غیر سیاسی اقدام ہو گا۔

دیکھیں خواب تو سب سچے ہیں۔ پولیس خود مختار ہو، بلکہ سول سروس پوری کی پوری با اختیار ہو۔ ان میں سیاسی مداخلت نہ ہو۔ ان دوچار واقعات نے اس تصور کی ساری چولیں ہی ڈھیلی کر دی ہیں۔ لوگ اسے عمران خان کا یو ٹرن کہہ لیں، ان کی مرضی، مگر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آیا ہم من حیث القوم ابھی اس طرح کے آئیڈیلزم کے خواب دیکھنے کے متحمل ہیں بھی یا نہیں۔ تنگ آ کر آدمی سوچتا ہے کہ معاملات ویسے ہی چلنے دو جیسے چلا کرتے تھے۔ تو کیا ملک یونہی چلتا رہے گا۔ وہی فیض صاحب والی بات میں بار بار لکھتا ہوں کہ مرے بھی ہیں کچھ خواب اوریہ خواب بکھرتے جاتے ہیں۔

جو بھی آیا اس کے ہاتھوں پہ خواب کچے کھلونوں کی طرح ٹوٹتے رہے۔ بھٹو نے کتنی چاہ کے ساتھ سول سروس میں ریفارمز کی تھیں۔ نتیجہ کیا ہوا؟ سب کچھ بکھر گیا۔ سول سروس کے سر سے آئین کا سایہ اٹھا لیا گیا۔ پہلے انہیں وہی تحفظ تھا جو آئینی اداروں کو حاصل ہوتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین نیب وغیرہ وغیرہ۔ انہیں آسانی سے بتایا نہیں جا سکتا۔ پھر حسرت ملازمت کا تعین تھا۔ تبادلے کرنے اس طرح آسان نہ تھے اور ملازمت سے برطرف کرنا تو ممکن نہ تھا۔ اس بار یوں لگتا تھا، ہم سول سروس کا وہی کلاسیکل دور واپس لا رہے ہیں۔مگر کیا یہ کہا جائے کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو رہا۔ دوسرے بہت سے خواب بھی پورے نہیں ہو رہے۔ یہی نا کہ اپنے اراکین اسمبلی کو فنڈز مہیا کیے جا رہے ہیں۔ اس امتیاز کے ساتھ کہ اپوزیشن کے ارکان کو کچھ نہیں ملے گا۔ میں اسے کسی کی بددیانتی نہیں کہتا، زمینی حقائق کہتا ہوں۔ تو کیا پاکستان یونہی چلتا رہے گا۔ فیض صاحب، کیا ٹھیک ہی کہتے تھے۔

 

 

سجاد میر