چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون پر پیشگی حکمِ امتناع جاری کرتے ہوئے تاحکم ثانی کسی بھی انداز اور طریقے سے عمل درآمد روک دیا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات بل پر سپریم کورٹ کے بینچ کے خلاف قرار داد منظور کر ڈالی ہے ۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود قومی اسمبلی نے الیکشن فنڈز بل بھی مسترد کر دیا ہے جس سے 14 مئی کو الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ تحریک انصاف کی طرف سے سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر کہا گیا ہے کہ جس طرح آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نا اہل ہوئے ہیں اسی طرح شہباز شریف بھی نا اہل ہوں گے ۔ مقننہ اور عدلیہ کی جنگ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ۔ پی ڈی ایم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اصلاحات کا بل ابھی نافذ نہیں ہوا تو اس معاملے پر عدالت کو 8 رکنی بینچ نہیں بنانا چاہئے تھا جبکہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔ حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہو گی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔سیاسی جماعتوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے ان کے لئے جج ہیرو بن جاتے ہیں جیسا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر رات کو بارہ بجے عدالت کھلی تو پی ڈی ایم نعرے لگا رہی تھی جبکہ آج وہ اُسی عدالت کے سامنے آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ لاکھوں کیس عدالتوں میں سالہا سال سے زیر التوا چلے آ رہے ہیں کیا وہ انسان نہیں یا ان کے کوئی حقوق نہیں۔ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان لڑی جانیوالی اقتدار کی جنگ ہے۔ اس میں ملک کے بائیس کروڑ عوام کو اذیت کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ ملک کے غریب عوام کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا، قومی معاملات پر بھی نہیں سوچا جا رہا ۔ بر سراقتدار آنے کے بعد سب وعدے بھلا دئیے جاتے ہیں۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ آئین ساز ادارے سینیٹ نے نئے صوبے کا بل دو تہائی اکثریت سے پاس کر رکھا ہے مگر کروڑوں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا مگر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بحران کے ذمہ دار پی ڈی ایم کے علاوہ خود عمران خان بھی ہیں کہ قبل از وقت قومی اسمبلی سے استعفے اور اپنی جماعت کی دو اکثریتی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اب پھر وہ انہی اسمبلیوں کی رکنیت کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے خلاف جارحانہ رویہ سامنے آیا ہے تو میرے ذہن میں 1993ء والا منظر آ گیا ہے، آج بھی حالات اسی طرف جا رہے ہیں، میں اپنے قارئین کو وہی منظر دکھانا چاہتا ہوں جو کہ عدلیہ پر حملے کی صورت میں پیش آیا۔ واقعہ اس طرح ہے کہ 28نومبر 1993ء کو اس وقت پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فل بینچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا، سماعت اس وقت اختتامی مراحل میں تھی، میاں نواز شریف کی طرف سے مشہور قانون دان ایس ایم ظفر عدالت کے روبرو موجود تھے، شنید تھی کہ کچھ ہی دیر میں عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی، نون لیگی قیادت فیصلے کے بارے زیادہ پر امید نہیں تھی۔ اسی اثناء میں عدالت کے حاضرین میں موجود حکومتی وزیر خواجہ آصف مضطرب ہو کر اٹھے اور عدالت کی اجازت سے باہر چلے گئے، ان کے باہر جانے کے کچھ ہی لمحات کے بعد عدالت میں شورو غوغا بلند ہوا اور شور و نعروں کی آوازیں کورٹ روم کے نزدیک آتی گئیں۔ اتنے میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دو صحافی کورٹ روم میں داخل ہوئے اور انہوں نے معزز جج صاحبان کو نون لیگی رہنمائوں اور کارکنان کے عدالت پر حملہ آور ہونے کی اطلاع دی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے مختصر الفاظ میں عدالت کو برخواست کرنے کا حکم دیا اور انتہائی تیزی سے ساتھی ججوں کے ساتھ کورٹ روم سے روانہ ہوگئے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد نون لیگی سینیٹر اور احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمن کی قیادت میں نون لیگی زعماء چند اراکین اسمبلی جن میں اس وقت کے نون لیگی ایم این اے طارق عزیز بھی شامل تھے اور کارکنان پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم کورٹ روم میں داخل ہو گیا اور ججوں کو وہاں نہ پا کر ججوں کو خبردار کرنے والے صحافی کو زد وکوب کرنے لگا، جسے بڑی مشکل سے ساتھی صحافیوں نے چھڑایا۔ بعد میں اپنے ہمنوا ججوں کے ذریعے سے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کروا دی گئی اور اس وقت کے اخبارات میں چیف جسٹس صاحب کو ذہنی طور پر بیمار شخص ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی، اس وقت بھی چیف جسٹس کے خلاف دیگر ججوں خاص طور پر کوئٹہ رجسٹری کے جج صاحبان نوازے جانے کی کہانیاں گردش کرتی رہیں، اس سے پہلے کہ جسٹس سجاد علی شاہ اپنے فیصلے کے ذریعے سے میاں نواز شریف کو نا اہل کرتے، انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کروا کے چیف جسٹس صاحب کا تختہ الٹ دیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ پر حملے کے خلاف کیس چلے، سزائیں ہوئیں اور بہت سے لوگ نا اہل بھی ہوئے۔ موجودہ حالات میں اقتدار کی جنگ سیاسی میدان ، پارلیمان سے ہوتی ہوئی عدالتی ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہے جس کا کام آئین بنانا اور عدلیہ کا کام آئین کی تشریح ہے، اگر تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو تمام بحران خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔